کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 309
’’اور تم میں سے آسودہ حال لوگوں کو یہ قسم نہ کھانا چاہئے کہ وہ قرابت داروں کو کچھ صدقہ نہ دیں گے۔‘‘
9۔ ﴿فَأتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّہُ وَالْمِسْکِیْنَ ذٰلِکَ خَیْرٌ لِّلْذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہ وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾۲۷؎
’’(اے مسلمانو) اپنے قرابت والے کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق۔یہ بات ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جواللہ کی رضا چاہتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہوں گے۔‘‘
10۔﴿اَلنَّبِیُّ اَوْلیٰ بِالْمُؤمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَاَزْوَاجُہُ اُمَّھٰتُھُمْ وَاُولُوْا الْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلیٰ بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہ مِنَ الْمُؤمِنِیْنَ وَالْمَہُاجِرِیْنَ اِلَّا اَنْ تَفْعَلُوْا اِلٰی اَوْلِیَائِکُمْ مَّعْرُوْفًا کَانَ ذٰلِکَ فِیْ الْکِتٰبِ مَسْطُوْراً﴾۲۸؎
’’بلا شبہ نبی مومنوں کے لیے ان کی اپنی ذات سے بھی مقدم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں اور کتاب اللہ کی رو سے مؤمنین اور مہاجرین کی نسبت رشتہ دار(ترکہ کے) ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔البتہ اگر تم اپنے دوستوں سے کوئی بھلائی کرناچاہو(تو کرسکتے ہو)کتاب اللہ میں یہی لکھا ہواہے۔‘‘
11۔ ﴿قُلْ لَّااَسْئَلُکْمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِیْ الْقُرْبیٰ﴾۲۹؎
’’آپ کہئے کہ میں اس کام پر تم سے کوئی اجرنہیں مانگتا البتہ قرابت کی محبت چاہتاہوں اور جو کوئی نیکی کمائے گا ہم اس میں خوبی کردیں گے۔بلا شبہ اللہ معاف کرنے والا اور قدردان ہے۔‘‘
12۔ ﴿وَالَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَااَمَرَ اللّٰہ بِہٖ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْئَ الْحِسَابِ﴾۳۰؎
’’جو اللہ سے کیا ہوا عہد پورا کرتے ہیں اور مضبوط عہد کرنہیں توڑتے اور جن روابط(یارشتہ داروں) کو اللہ نے ملانے کا حکم دیا ہے انہیں ملاتے ہیں اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور بُرے حساب سے ڈرتے ہیں۔‘‘
صلہ رحمی احادیث مبارکہ کی روشنی میں
صلہ رحمی سے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین حسب ذیل ہیں:
1۔ ((احفظوا انسابکم تصلوا ارحامکم فانہ بعد بالرحم اذا قربت وان کانت بعیدۃ ولا قرب بھا اذا بعدت وان کانت قریبۃ وکل رحم آیتہ یوم القیامۃ امام صاحبھا،تشھد لہ بصلۃ ان کان وصلھا وعلیہ بعطیعۃ ان کان قطعھا)) ۳۱؎
’’اپنے نسب ناموں کی حفاظت کرو اور صلہ رحمی کیا کرو بلاشبہ اولواالارحام اگرچہ دور کے ہوں ان میں کسی قسم کی دوری نہیں ہے اور اس حالت میں وہ قریبی عزیز بھی غیر رشتہ داروں کی طرح ہوں گے جب وہ آپس میں قطع تعلقی کئے ہوئے ہوں۔ہررشتہ دار قیامت کے دن اپنے رشتہ دار کے ساتھ آئے گا۔جس شخص نے صلہ رحمی کی ہوگی صلہ اس کی شہادت اور گواہی دے گا اورجس شخص نے قطع تعلقی کی ہوگی صلہ اس شخص کے خلاف گواہی اور شہادت دے گا۔‘‘
2۔ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
((اتیت رسول اللّٰہ!فی اوّل مابعث وھو بمکۃ وھو حنسذ مختف،فقلت،ماانت؟ قال ’’انا نبی‘‘ قلت:وما النبی؟ قال ’’رسول اللّٰہ!‘‘ قلت بما ارسلک؟ قال ’’بان أعبداللّٰه،وتکسرالاوثان،توصل الارحام بالبر والتصلۃ)) ۳۲؎
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں(اللہ کا) نبی ہوں۔(حضرت عمرو نے کہا) نبی کیا ہوتاہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) وہ اللہ کا رسول