کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 299
’’ھل تدری کیف قضیٰ عمر فی العمۃ والخالۃ قال لا قال إنی لأعلم خلق اللّٰہ کیف کان قضیٰ فیھما عمر جعل الخالۃ بمنزلۃ الأم والعمۃ بمنزلہ الأب‘‘۶۶؎ ’’کیا تم جانتے ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھوپھی اور خالہ کے بارے کیا فیصلہ فرمایا؟ کہا نہیں فرمایا:میں اللہ کی مخلوق کو زیادہ جانتا ہوں کیسے حضرت عمر نے ان کا فیصلہ فرمایا:حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خالہ کو ماں کے قائم مقام ٹھہرایا او رپھوپھی کو باپ کے قائم مقام ٹھہرایا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں: ’’أن رجلا أتی النبی!فقال یارسول اللّٰہ!إنی أصبت ذنبا عظیما فھل لی توبہ؟ قال ھل لک من أم؟ قال لا،قال ھل لک من خالہ؟ قال نعم قال فبرھا‘‘۶۷؎ ’’یہ روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اور ابوبکر بن حفص رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔‘‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بہت بڑا گناہ کامرتکب ہوچکا ہوں کیا میرے لئے توبہ کا موقع ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تیری ماں حیات ہے؟ کہا نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تیری خالہ زندہ ہے؟ کہا:ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اس سے حسن سلوک کرو۔‘‘ خالہ اور بھانجی کاایک نکاح میں جمع ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالہ اور بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی کو ایک نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لا تنکح العمۃ علی بنت الأخ ولا ابنۃ الأخت علی الخالۃ‘‘ ۶۸؎ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لا یجمع بین المرأۃ و عمتھا ولا بین المرأۃ و خالتھا‘‘۶۹؎ ’’کہ پھوپھی اور بھانجی کو ایک آدمی کے نکاح میں او ربھتیجی اور خالہ کو ایک آدمی کے نکاح میں جمع نہ کیا جائے۔‘‘ صحیح مسلم میں ان الفاظ سے بھی منقول ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول نے چار عورتوں کے جمع کرنے سے منع فرمایا:’’المرأۃ و عمتھا والمرأۃ و خالتھا‘‘ ۷۰؎ خالہ کا وراثت میں حصہ حضرت امام شعبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت زیاد سے سوال کیا گیا کہ آپ کی اس آدمی کی وراثت کے بارے میں کیارائے ہے جو فوت اس حال میں ہوا ہو کہ اس کے پیچھے اس کی پھوپھی اور خالہ موجود ہوں اور اس بارے میں آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ جانتے ہو؟ کہا نہیں۔فرمایا اللہ کی قسم!میں لوگوں سے اس بات میں زیادہ جانتاہوں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ فرمایا۔ ’’جعل العمۃ بمنزلۃ الأخ والخالۃ بمنزلۃ الأخت فاعطی العمۃ الثلثین والخالۃ الثلث‘‘ ۷۱؎ ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھوپھی کو بھائی کے قائم مقام ٹھہرایااور خالہ کو بہن کے قائم مقام قرار دیا او رپھوپھی دو تہائی حصہ دیا اور خالہ کو ثلث دیا۔‘‘ ٭٭٭