کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 29
شادی کرے۔جس کا بڑا کاروبار یا بڑی اچھی نوکری اور پُرکشش تنخواہ ہو،اب بذات خود وہ تنخواہ یا کاروبار کیسے ہیں؟ انہیں جاننے کا تکلف بہت کم ہی کیا جاتا ہے،دین و مذہب کو،کوئی ترجیح نہیں دیتا۔ شکل و صورت ہی معیار اس میں شکل و صورت کا معیار بھی شامل ہے۔دولہا کے خاندان والوں کامطالبہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی دراز قد،گوری چٹی،انتہائی خوبصورت اور دبلی پتلی سمارٹ ہو،اسے مختلف قسموں کے کھانے پکانے آتے ہوں اور وہ بغیر کسی اعتراض کے مکمل طور پر فرمانبردار بھی ہو وغیرہ۔یہ فطری بات ہے کہ آج کے دور میں اکثر لڑکیاں ایسی کسی شادی کوقبول نہیں کریں گی جو ایک طرح پڑھا پڑھایاگیا ’’غلامی کا معاہدہ‘‘ ہو۔اس لیے ان لڑکیوں کو ٹھکرا دیا جاتا ہے جن کا اپنا کوئی ذہن اور سوچ ہو۔ علاقائی اختلاف خاندانی زندگی کے مسائل کے حوالے سے پاکستان میں اگرچہ صورت حال ہر جگہ ایک جیسی نہیں ہے۔لیکن مختلف علاقوں میں کئی نامناسب روایات پائی جاتی ہیں۔قتل غیرت،شک کی بنا پر قتل،ونی،سوارا،کاروباری بیٹیوں کوبیچنا،عورتوں کی خریدوفروخت وغیرہ ایسی ہی مثالیں ہیں۔۹۹؎ اسلام کا خاندانی نظام علماء کی نظر میں اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے۔دین اسلام ہر ایک کو ہر زمانے میں ہرقسم کی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔خواہ اس کا تعلق سیاست و سیادت سے ہو،خواہ اس کا تعلق معیشت و اقتصاد سے ہو،خواہ اس کا تعلق تمدن و معاشرت سے ہو،خواہ اس کا تعلق لین دین اور معاملات سے ہو،خواہ اس کا تعلق احکام سے ہو،گویا ہر فیلڈ میں اسلام مکمل رہنمائی مہیا کرتا ہے۔اسلام کی خصوصیات میں سے،اس کاخاندانی نظام بھی ہے جس کی مثال کسی اور مذہب و ملت میں نہیں ملتی۔ذیل میں عصر حاضر کے مختلف علماء کرام کے ’’اسلام کے خاندانی نظام‘‘ پر کئے گئے تبصرے نقل کئے جاتے ہیں۔ ٭ مولانا عبدالجبار شاکر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اسلام کے حسنات و برکات میں سے ایک نمایاں خوبی،اس کا خاندانی نظام ہے۔آج روئے ارضی پر جتنے مذاہب اور تہذیبیں پائی جاتی ہیں،ان میں صرف اسلام ایک ایسا دین ہے،جو مسلمانوں کو ایک خاندانی نظام میں پرو دیتا ہے۔یورپ،امریکہ اور سکنڈے نیوین ممالک میں خاندانی نظام بہت تیزی سے روبہ زوال ہوا ہے۔ان معاشروں میں شادی سے پہلے ناجائز تعلقات استوار کرنے کی آزادی نے انہیں ایک حیوان بناکر رکھ دیا ہے۔ہم جنس پرستی ایک وبا کی طرح پھیل رہی ہے اور اسے بعض ممالک میں قانونی شکلیں دی جارہی ہیں۔باقاعدہ شادی اور نکاح کے دو سال کے دوران میں طلاق دینے یا حاصل کرنے کی شرح بتدریج بڑھتی چلی جارہی ہے،کسی معاشرتی یا اخلاقی بندھن کے بغیر ازدواجی تعلق کے جوڑوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ایک خاص تعداد ایسے بچوں کی ہے جن کو اپنی ولدیت معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ حاصل نہیں ہے۔ دین و شریعت میں آج سے چودہ سو سال قبل جو معاشرتی ضوابط اور خاندانی اقدار ملت اسلامیہ کو دیئے گئے وہ کسی نعمت سے کم