کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 22
روایت میں بھی مذکورہ بات کی تصریح موجود ہے) تو قابیل نے اپنی بہن سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا اور اس کی بہن بھی اس پر خوش تھی تو ان کے باپ آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ دونوں کے لیے یہ لائق نہیں کہ آپ میری بات کا انکار کریں۔قابیل نے باپ کی بات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی منانے کی کوشش کی تو باپ نے کہا تم اللہ کے نام پر قربانی کرو جس کی قربانی اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوگئی وہ قابیل کی بہن سے نکاح کرنے کا زیادہ حق دار ہے تو قابیل کھیتی باری کا کام کرتا تھا اور اس نے نکمی کھیتی اللہ کی راہ میں پیش کی اور ہابیل بکریاں چراتا تھا اور اس کوایک جانور سے بہت زیادہ محبت تھی تو اس نے اپنا پسندیدہ مال اللہ کی راہ میں پیش کیاتو آگ آئی اور اس نے ہابیل کی قربانی کو جلا دیا گویا وہ اللہ کے ہاں مقبول ٹھہری اور قابیل کی نکمی کھیتی اسی طرح پڑی رہے۔قابیل یہ دیکھ کر غصے میں آگیااور کہنے لگا اگر تو نے میری بہن سے نکاح کیا تو میں تم کو قتل کردوں گا۔ہابیل نے کہا
﴿اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہ مِنَ الْمُتَّقِیْن﴾۸۵؎
محل استشہاد یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیت کریمہ اور اس کی تفسیر میں حضرت آدم علیہ السلام کے خاندان اور ان کے خاندان سے مزید خاندانوں کا تذکرہ ہے جو دور اوّل کے خاندانوں میں شمار ہوتے ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کے خاندان کے بعد حضرت نوح علیہ السلام جن کو آدم ثانی کہا جاتا ہے ان کے خاندان کے بارے میں قرآن کریم اس طرح سے نقشہ کھینچتا ہے۔
﴿حَتّٰی اِذَا جَائَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْر قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلٍ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَھْلَکَ اِلَّامَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْل وَمَنْ اٰمَنَ وَمَا اٰمَنَ مَعَہٗ اِلَّاقَلِیْل وَقَالَ ارْکَبُوْا فیہا بِسْمِ اللّٰہ مَجْرٖہَا وَمُرْسٰہَا إِنِّی رَبِّی لَغَفُوْرُ الرَّحِیْمٌ ﴾۸۶؎
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور جوش مارنے لگا تو ہم نے(نوح علیہ السلام کو) حکم دیا کہ ہرقسم(کے جانوروں) میں سے جوڑا جوڑا(یعنی) دو(دو جانور۔ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ) لے لو اور جس شخص کی نسبت حکم ہوچکا ہو(کہ ہلاک ہوجائے گا) اس کو چھوڑ کر اپنے گھروالوں کو اور جو ایمان لایا ہو،اس کو کشتی میں سوار کرلو اور ان کے ساتھ ایمان بہت کم ہی لوگ لائے تھے(نوح علیہ السلام نے ) کہا خدا کا نام لے کر(کہ اُسی کے نام سے)اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے۔اس میں سوار ہوجاؤ۔بے شک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے اور وہ ان کو لے کر(طوفان کی)لہروں میں چلنے لگی۔(لہریں کیاتھیں) گویا پہاڑ(تھے) اس وقت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو کہا کہ ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں میں شامل نہ ہو اس نے کہا کہ میں پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا وہ مجھے بچا لے گا انہوں نے کہاکہ آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔(اور نہ کوئی بچ سکتا ہے) مگر جس پر اللہ کاحکم ہوا۔اتنے میں دونوں کے درمیان لہر حائل ہوئی اور وہ ڈوب کر رہ گیا۔
خاندان ابراہیم علیہ السلام
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کے بارے میں قرآن میں ہے:
﴿وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمَاعِیْلُ رَبَّنَاتَقَبَّلْ مِنَّا اَنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم﴾۸۷؎
’’ اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام بیت اللہ کی بنیادیں بلند کررہے تھے اور کہہ رہے تھے۔اے اللہ ہماری دعا قبول فرما لے بے شک تو سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر ہے:
﴿قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَا اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَااُنْزِلَ عَلَی اِبْرَاہِیْمَ وَ اِسْمَاعِیْلَ وَ اِسْحَاقَ وَ یَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَا اُوْتِیَ