کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 216
کہ وہ علیحدہ نہ رہے اور والدین سے حسن سلوک منقطع نہ ہو اور اگر وہ لڑکی ہے تو اس کے لئے والدین سے علیحدہ رہنا جائز نہیں اور اس کے باپ کو بیٹی کو روکنا واجب ہے اور باپ موجود نہ ہو تو بیٹی کا ولی یااس کے گھر والے اس کو علیحدہ رہنے سے روکیں۔‘‘ فقہ مقارن کی مشہور کتاب ’المغنی ‘میں ابن قدامہ تحریر کرتے ہیں: ’’مسالۃ،قال:(وإذا بلغت الجاریۃ سبع سنین فالأب أحق بھاتخیر کالغلام لأن کل سن خیر فیہ الغلام خیرت فیہ الجاریۃ کسن البلوغ،وقال أبوحنیفۃ:الأم أحق بھا حتی تزوج أوتحیض،وقال مالک الأم أحق بھا حتی تزوج أو یدخل بھا الزوج لأنھا لا حکم لاختیارھا ولا یمکن انفرادھا فکانت الأم أحق بھا کما قبل السبع…(فصل) إذا کانت الجاریۃ عند الإمام أوعند الأب فإنھا تکون عندہ لیلا و نھار لأن تأدیبھاو تخریجھا فی جوف البیت من تعلیمھا الغزل والطبخ وغیرھا ولا حاجۃ بھا إلی الإخراج منہ‘‘۱۲؎ ’’مسئلہ:اور جب لڑکی سات سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کاباپ اس کازیادہ حق رکھتا ہے۔امام شافعی aکہتے ہیں:اس لڑکی کو لڑکے کی طرح ہی اختیار دیا جائے گا کہ وہ بلوغت کے بعد ماں یا باپ میں سے کسی ایک کے پاس رہ سکے۔اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس عمر میں ماں اس لڑکی کی زیادہ حق دار ہے حتیٰ کہ اس لڑکی کی شادی ہوجائے یا اسے حیض آجائے۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ماں زیادہ حق دار ہے،حتیٰ کہ اس لڑکی کا نکاح ہو جائے یا خاوند اس سے ہمبستری کر لے۔کیونکہ لڑکی کو اختیار دینے کا کوئی ثبوت نہیں اور نہ ہی لڑکی کا اکیلے رہنا ممکن ہے۔پس ماں ہی لڑکی کی زیادہ حق دار ہے جس طرح کہ سات سال کی عمر سے قبل تھی جب کوئی لڑکی ماں یاباپ کے پاس رہے تو وہ ان کے پاس دن رات رہے گی،کیونکہ لڑکی کو ادب سکھانا اور گھر میں ہی کھانے پکانے اور سینے پرونے کی تعلیم دینا ہوتی ہے اور لڑکی کو گھر سے باہرنکلنے کی کوئی حاجت نہیں۔‘‘ اس سلسلہ میں امام مالک رحمہ اللہ کا موقف درج ذیل ہے: ’’یجب علی الإبنۃ أن لا تفارق أمھاحتی تزوج و یدخل بھا الزوج۔دلیلنا أنھا إذا بلغت رشیدہ فقد ارتفع الحجر عنھا،فکان لھا أن تنفرد بنفسھا‘‘۱۳؎ ’’یعنی بیٹی پر واجب ہے کہ ماں سے جدا نہ ہو حتیٰ کہ اس کا نکاح ہو جائے اور اس کا خاوند ہمبستری کر لے،اس کی دلیل یہ ہے کہ جب لڑکی سن رشد کو پہنچ جاتی ہے تو اس سے حرج جاتا رہتا ہے اور تب وہ علیحدہ رہ سکتی ہے۔‘‘