کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 214
کفالت کے بارے میں ائمہ کی آراء ٭ امام مالک رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’المدونۃ الکبریٰ‘‘ میں ’’نفقہ کن پر واجب ہے؟‘‘ کے عنوان کے تحت تحریر کرتے ہیں: ’’قلت من تلزمنی نفقۃ فی قول مالک(قال) الولد ولد الصلب دنیۃ تلزمہ نفقتھم فی الذکور حتی یحتلموا فإذا احتلموا لم تلزمہ نفقتھم والنساء حتی یتزوجن ویدخل بھن ازواجھن فاذا دخل بالبنت زوجھا فلا نفقۃ لھا علیہ فان طلقھا بعد البناء بھا أومات عنھا فلا نفقۃ لھا علی ابیھا(قلت) فان طلقھا قبل البناء(فقال)ھی علی نفقتھا ألا تری أن النفقۃ واجبۃ علی الاب حتی یدخل بھا لأن نکاحھا فی ید الأب مالم یدخل بھا زوجھا‘‘۵؎ ’’امام مالکa کے فرمان کے مطابق نسبی اولاد کا نفقہ والد پر ہے،بیٹوں کے بالغ ہونے تک۔جب وہ بالغ ہوجائیں تب باپ پر ان کانفقہ واجب نہیں جبکہ بیٹیوں کے نکاح تک اور ان کے خاوند ان سے ہمبستری کرلیں۔جب بیٹی سے اس کا خاوند ہمبستری کرلے تو باپ پر بیٹی کا کوئی نفقہ نہیں اسی طرح اگر بیٹی کو ہمبستری سے قبل طلاق ہوجائے تو وہ باپ کے نفقے پر لوٹ آئے گی،کیونکہ باپ پر بیٹی کا نفقہ ہمبستری تک واجب ہے۔‘‘ ٭ حنفیہ کی رائے بھی مالکی مسلک کے مطابق ہے،جیساکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’نفقۃ الأنثی لاتسقط حتی تتزوج و حکی عن مالک‘‘۶؎ ’’امام ابوحنیفہ aفرماتے ہیں کہ لڑکی کانفقہ اس وقت تک باپ کے ذمہ ہے جب تک وہ نکاح نہ کرلے او ریہی قول امام مالک سے بھی منقول ہے۔‘‘ فقہ کے تقابلی مطالعہ کی مشہور کتاب ’’الفقہ الاسلامی و ادلتہ‘‘ میں احناف او رمالکیہ کا کفالت(نفقہ اور ولایت) کے بارے میں مسلک یوں منقول ہے: ’’تنتھی الولایۃ علی النفس فی رأی الحنفیۃ فی حق الغلام ببلوغۃ خمس عشر سنۃ،أو بظھور علامۃ من علامات البلوغ الطبیعیۃ،وکان عاقلا مامونا علی نفسہ۔وإلا بقی فی ولایۃ الولی۔و إمام فی حق إلا انثی،فتنتقی ھذہ المرحلۃ بزواجھا،فإن تزوجب صارحق إمساکھا لزوجھا،وإن لم تتزوج بقیت فی ولایۃ غیرھا إلی أن تصیر مسنّۃ مأمونۃ علی نفسھا،فحینئذ یجوز لھا أن تنفرد بالسکنی،أو تقیم مع أمھا۔ولم یحدد الحنفیۃ ھذہ السن،والظاھر من کلامھم أن تصیر عجوزاً إلا یرغب فیھا الرجال۔وأما فی مذھب المالکیۃ:فتنتھي الولایۃ علی النفس بزوال سببھا،وسببھا الصغر،وأما الأنثی فلاتنتھی الولایۃ النفسیۃ علیھا إلایدخول الزوج بھا‘‘ ۷؎ ’’حنفیہ کی رائے میں لڑکے پر ولایت(باپ کی ذمہ داری) پندرہ سال کی عمر تک بلوغت تک ہوتی ہے یا بلوغت کی جسمانی علامات ظاہرہونے پر وہ باپ کی ذمہ داری میں رہتا ہے۔جبکہ وہ عقل مند رہے اور اپنی حفاظت پر قادر ہو بصورت دیگر وہ ولی کی ذمہ داری میں ہی رہے گا… جہاں تک لڑکی کا مسئلہ ہے تو ولی کی ذمہ داری لڑکی کی شادی تک رہتی ہے۔اگر لڑکی شادی شدہ ہوجائے تو اس کی ذمہ داری