کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 18
خاندانی نظام کی تاریخ و پس منظر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں اور مسلمہ حقیقت ہے کہ خاندانی نظام کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا انسان کا وجود۔اس لیے کہ انسان طبعی طور پر معاشرت پسندی اور اجتماعیت کو چاہتا ہے۔عربی کا مقولہ ہے: ’’إن الإنسان مدنی أو إجتماعی لطبعہ‘‘۷۰؎ ’’انسان ہمیشہ سے معاشرت اور اجتماعیت کادلدادہ رہا ہے۔‘‘ سوال یہ پیدا ہوتاکہ انسان اجتماعیت اور معاشرت پسند کیوں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر مختلف عناصر کو جمع کردیا جس کی بنا پر یہ اکیلا رہنا پسند نہیں کرتا۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جنس انسانیت میں خاص طور پر محبت کا عنصر رکھ دیا جس کیوجہ سے ایک انسان دوسرے انسان کے دُکھ درد میں بحیثیت انسان شریک ہوتاہے بلکہ دوسرے کے مصائب و الام کواپنے لیے آزمائش قرار دیتا ہے اور اسکے مقابلے کیلیے بھرپور کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّۃً وَّرَحْمَۃ﴾۷۱؎ ’’ہم نے تمہارے اندر محبت و الفت کو پیدا کردیا ہے۔‘‘ علاوہ ازیں ایک اور مقولہ ہے: ’’کنت إنسانا محبوبا من والدہ و ممدوحاً من امہ محبوبا من اخوتہ واخواتہ‘‘۷۲؎ ’’میں ایسا انسان ہوں جس سے اس کا باپ محبت کرتا ہے اور اس کی ماں تعریفیں کرتی ہے اور وہ اپنے بہن،بھائیوں کی طرف سے بہت زیادہ محبت کیا جاتا ہے۔‘‘ یعنی خاندان اور ایک معاشرے کاہرفرد دوسرے فرد سے محبت و اُلفت رکھتا ہے اور یہی چیز ایک خاندان اور معاشرے کی فلاح و کامیابی کا ہمیشہ سے راز رہا ہے۔ اسی طرح زمانہ قدیم سے افراد خاندان و معاشرہ ایک دوسرے سے مدد و تعاون کا سلوک روا رکھتے رہے ہیں اور ایک دوسرے کی حفاظت و نگرانی کو اپنا شیوہ قرار دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَان﴾۷۳؎ ’’یعنی نیکی اور تقویٰ کے اعمال میں ایک دوسرے کا تعاون کروجبکہ گناہ و ظلم و زیادتی کے کاموں میں آپس میں تعاون کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘ مزید برآں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: ((کلکم راع و کلکم مسؤول عن رعیتہ))۷۴؎ ’’(خاندان کا) ہر فرد و راعی ہے اور ہر ایک مسؤل ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے سوال کیا جائے گا۔‘‘ خاندان کی تاریخ اس چیز کی گواہ ہے کہ ہمیشہ سے ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی مسؤل،امیر یا حکمران رہاہے۔جس کی نگہبانی اور نگرانی میں تمام افراد خاندان زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔جس کی حجت اور برہان یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو اپنے