کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 15
وھو مجمع علی ذلک......‘‘ ’’یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ ماں باپ سے زیادہ بچے کی حق دار ہے جب تک کہ حقیقی رکاوٹ پیدا نہ ہوجائے۔مثلاً ماں کا دوسرا نکاح کرلینا،ایسا مسئلہ ہے۔جس پر اجماع ہے۔‘‘ اسلام نے ایک مثالی بیوی کے اوصاف نہایت جامع اور مختصر الفاظ میں ہمارے سامنے رکھے ہیں۔چنانچہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ((ما استفادالمؤمن بعد تقوی اللّٰہ عزوجل خیرًالہ من زوجۃ الصالحۃ أن أمرھا أطاعتہ وإن نظر إلیھا سرتہ وأن أقسم علیھا أبرتہ وإن غاب عنھا نصحت فی نفسھا و مالۃ)) ۶۲؎ ’’مومن کے لیے تقویٰ حاصل ہونے کے بعد سب سے بڑی بھلائی،نیک بیوی ہے۔جب وہ اسے حکم دے تو اطاعت کرے۔جب اس کی طرف دیکھے تو وہ خوش کردے اور اگر وہ اس کی طرف سے کوئی قسم کھا بیٹھے تو اسے پورا کرے اور اگر شوہر گھر میں موجود نہ ہو تو اپنی اورشوہر کے مال کی حفاظت کرے۔‘‘ عورت کو چونکہ گھریلو زندگی کی منتظم بنایاگیا ہے۔لہٰذا اس کا فرض ہے کہ خوش اسلوبی اور سلیقہ سے گھر چلائے۔گھر کی صفائی،ستھرائی اور نظم و نسق کو برقرار رکھے۔باپ،بھائی،شوہر اور ان میں سے ہر ایک کے کھانے،لباس،خوراک اور آسائس و راحت کا خیال کرے اوروہ تمام اہل خانہ کے لیے سرمایہ حیات و سکون بن جائے۔ ٭ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’یہ فرائض عورت کے لیے مخصوص ہیں کہ وہ کھانے،پینے اور لباس تیار کرنے کی خدمت سرانجام دے۔شوہر کے مال کی حفاظت کرے،بچوں کی تربیت کرے اور وہ تمام امور جو گھر کے متعلقہ ہوں انہیں بطریق احسن انجام دے۔‘‘۶۳؎ ٭ امام ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’قال ابن خبیب فی(الواضحۃ) حکم النبی بین علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ و بین زوجۃ فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہا حین اشتکیا إلیہ الخدمۃ محکم علی فاطمۃ بخدمۃ الباطنۃ خدمۃ البیت و حکم علی رضی اللّٰہ عنہ بالخدمۃ الظاھرۃ ثم قال ابن حبیب و الخدمۃ الباطنۃ العجین والطبخ والفرش وکنس البیت و استقاء الماء وعمل البیت کلہ‘‘ ’’ابن حبیب نے ’’واضح‘‘ میں لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے درمیان یہ فیصلہ فرمایا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کا کام کریں گی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ باہر کے۔پھر ابن حبیب کہتے ہیں کہ گھر کے کام کاج میں آٹا گوندھنا،روٹی پکانا،بستر جھاڑنا،جھاڑو دینا اور پانی پلانا شامل تھے۔‘‘ بلاشبہ گھریلو کاموں کو حقیر سمجھنا،بچوں کی پرورش کو نظر انداز کرنا اور باہر کے اجتماعی معاملات میں حصہ لینا اور اسے ترقی خیال کرنا غلط انداز فکر ہے۔اسلام نے کچھ حدود کے ساتھ اجتماعی معاملات میں حصہ لینے کا حق ضرور دیا ہے،لیکن یہ حق نہیں دیا،کہ اپنی فطری ذمہ داریوں کو حقیر سمجھیں،انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی،دراصل یہ ہے کہ عورتیں اعلیٰ خاندان و معاشرہ قائم کرسکیں اور اعلیٰ انسانی معاشرے کے لیے ناگزیر ہے کہ عورتیں بچوں کی پرورش کا حق ادا کریں اور اعلیٰ کردار اور پاکیزہ کردار اور پاکیزہ سیرت کے انسان تیار کریں اس لیے خاندان کی اصلاح اور ترقی و رتبہ اسی چیز میں پنہاں ہے۔یہ کام عورتوں کے سوا کوئی بطریق احسن انجام نہیں دے سکتا۔اچھے انسان