کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 143
خلع سے رجوع کا حق فقہاء کے ہاں خلع کرنے والی عورت اور مرد آپس میں رجوع نہیں کرسکتے۔کیونکہ عورت نے اپنے مال کی قربانی دے کر خلع حاصل کیا اور معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے لیاہے۔گویا خلع سے حاصل کی ہوئی آزادی طلاق بائن کی طرح ہے۔الا یہ کہ وہ رضامندی سے دوبارہ نکاح کرلیں۔ خلع والی عورت کی عدت صحیح سنت سے ثابت ہے کہ خلع کرنے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے۔ 1۔ حضرت نافع رضی اللہ عنہ جوکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مولی تھے۔انہوں نے حضرت ربیع بنت معوذ بن عفرا رضی اللہ عنہ سے سنا،وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بتا رہی تھیں کہ انہوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد میں اپنے خاوند سے خلع کیا ان کاچچا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کہا معوذ رضی اللہ عنہ کی بیٹی نے اپنے خاوند سے خلع کیا ہے۔کیا وہ منتقل ہو جائے۔؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ منتقل ہو جائے لیکن ان دونوں کے مابین وراثت نہیں ہوگی۔اور وہ کسی سے نکاح ایک حیض عدت گزارنے کے بعد کرسکتی ہے۔۵۲؎ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اورحافظ ابن قیم رحمہ اللہ کابھی یہی موقف ہے کہ خلع کرنے والی کی عدت ایک حیض ہے۔۵۳؎ حقوق نسواں کمیٹی ۱۹۹۶ء؁ کی خلع کے معاملے میں بحث حقوق نسواں کمیٹی۱۹۹۶ء؁ نے اپنی رپورٹ کی سفارشات دفعہ نمبر۳۳ میں لکھا۔ ’’مسلم لاء کے تحت جوعورت خلع کے اصول پرتفریق نکاح کامطالبہ کرے اورخاوندکومالی معاوضہ دینے پرتیارہو اسے اپنا حق تفریق نکاح استعمال کرنے کے لئے عدالت یاقاضی کے سامنے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اگراس رپورٹ پرغورکیاجائے تومعلوم ہوگاکہ اس رپورٹ میں عورت کو خوب ابھاراگیاہے۔وہ جب چاہے طلاق لے لے اورگھربیٹھ جائے۔سرے سے اس کو کوئی فرد واحد یاعدالت پوچھنے والی نہیں۔حالانکہ یہ انتہائی غلط بات ہے کہ عورت جب چاہے مرد کوچھوڑکرکسی اورکے ساتھ شادی رچالے یاآزادی سے دندناتی پھرے۔جبکہ ضرورت کے وقت خلع لینے کی عورت اجازت ہے تو پہر اسے شرعی طریقے سے ہی خلع لینا چاہیے۔