کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 130
طَلِّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْد حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ ط فَإِنْ طَلَّقَہَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِمَا أَنْ یَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہ وَتِلْکَ حُدُوْدَ اللّٰہ یُبَیِّنُہَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ وَاِذَاطَلَّقْتُمُ النِّسَائَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْسَرِّحُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَلَاتُمْسِکُوْہُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْظَلَمَ نَفْسَہٗ وَلَاتَتَّخِذُوْا اٰیٰتِ اللّٰہِ ہُزُوًا وَّاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَمَا اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ وَالْحِکْمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہٖ ط وَاتَّقُواللّٰہَ وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْم وَاِذَاطَلَّقْتُمُ النِّسَائَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْہُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَاتَرَاضَوْا بَیْنَکُمْ بِالْمَعْرُوْف ط ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآْٰخَرِ،ذٰلِکُمْ اَزْکٰی لَکُمْ وَاَطْہَر ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْن﴾۱۴؎ ’’طلاق دومرتبہ ہے پھرروک رکھناہے،دستورکے مطابق یاچھوڑدینا ہے خوش اسلوبی کے ساتھ اورتمہارے لیے یہ بات حلال نہیں کہ۔۔(وقت رخصت)اس مہر میں سے کوئی بھی چیزواپس لو۔جوتم نے ان کودی ہے مگراس وقت جب میاں بیوی کواحتمال ہوکہ وہ اللہ کی حدود کوقائم نہ رکھ سکیں گے اورتم کو بھی۔(اے مسلمانو!)اندیشہ ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود کوقائم نہ رکھ سکیں گے تودونوں پرکوئی گناہ نہ ہوگا۔اس(۔مال کے لینے دینے)میں جس کو عورت(خلع کے) بدلے میں دے۔یہ حدوداللہ ہیں ان حدودسے ہر گزتجاوزنہ کرو اورجوشخص حدوداللہ سے تجاوزکرجائے توایسے ہی لوگ،اپنے اوپرظلم کرنے والے ہیں۔پھراگرکسی نے(تیسری مرتبہ)عورت کوطلاق دے دی تواب وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی۔یہاں تک کہ و ہ اس کے سوا ایک اورآدمی کے ساتھ(عدت کے بعد)نکاح کر ے۔پھراگر(دوسرا)خاونداس کوطلاق دے دے توان دونوں پرکوئی گناہ نہیں کہ وہ دوبارہ مل جائیں بشرطیکہ دونوں حدوداللہ کوقائم رکھنے کاارادہ رکھتے ہوں یہ اللہ کی حدیں ہیں۔اللہ ان حدوں کو،ان لوگوں کے لئے بیان کرتاہے جو اہل دانش ہیں۔جب تم عورتوں کو طلاق دے چکے اور وہ عدت کوپہنچ جائیں توان کودستور کے مطابق روک لو یادستور کے مطابق رخصت کردو۔ان کوستانے کی غرض سے ہرگزنہ روکو۔اورجوشخص ایساکرے گا تووہ اپنا ہی نقصان کرے گااوراللہ کے احکام کے ساتھ ہنسی مذاق نہ کرو اورجونعمتیں اللہ کی تم پرہیں ان کویاد کرو۔اور(خصوصا)اس کتاب وحکمت کوجو اس نے تم پرنازل کی ہے۔جس کے ساتھ وہ تم کونصیحت کرتاہے۔اللہ(کے احکام)کی خلاف ورزی سے ڈرو اوریقین رکھوکہ اللہ کوہر چیزکاعلم ہے۔اورجب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت(میعاد)پوری کرلیں توتم ان کو اس بات سے نہ روکوکہ وہ اپنے خاوندوں سے نکاح کرلیں۔جب دستورکے مطابق دونوں رضامندہوں،اس بات کی نصیحت تم میں سے ہر اس شخص کوکی جاتی ہے جو اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتاہے۔اس نصیحت کوقبول کرناتمہارے لیے زیادہ صفائی اورزیادہ پاکیزگی کی بات ہے۔اوراللہ۔(اس قانون کی حکمت کو)جانتاہے تم نہیں جانتے۔‘‘ اسلامی طریق طلاق کی خصوصیات مذکورہ آیات کی روشنی میں اسلام کے قانون طلاق کی درج ذیل اہم خصوصیات کاعلم ہوتاہے۔ 1۔ اسلام کے قانون طلاق کی پہلی اہم خصوصیت یہ ہے کہ خاوند کے طلاق دینے اور اس کے واقع ہونے(Coprational) میں تین ماہ کافصلہ رکھاگیاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْء﴾۱۵؎ ’’جن عو رتوں کو طلاق دی گئی،وہ تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں۔‘‘ اس کے علاوہ شوہر کے حق رجعت کودوطلاقوں تک محدودکیاگیاہے۔جیسے کہ﴿الطلاق مرتان﴾کے جملے سے واضح کیاگیاہے۔لیکن بہت سے علماء اورفقہاء نے اس کامطلب یہ بیان کیاہے کہ طلاق دومجلس یادومختلف طہروں میں دی جائے