کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 128
کم کردی ہے۔حالانکہ ان کی اہمیت اسلام نے کم نہیں کی بلکہ اس کوبڑھایا ہے۔انہیں اس بات پرسوچناچاہیے کہ فیملی کی حیثیت ایک ادارے کی ہے۔لہذا خاوندکی اطاعت،ایک ادارے کانظام چلانے کے لئے ضروری ہے اگرکسی ادارے سے نظم ونسق کوختم کردیا جائے توادارہ کی اساس مسمار ہوکر رہ جائے گی اس کایہ بھی مطلب نہیں کہ خاوند ڈکٹیٹر بن جائے بلکہ اسے اپنے بیوی بچوں سے حسن وسلوک سے پیش آناچاہیے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’خیرکم خیرکم لأہلہ وأناخیر کم لأہلی‘‘۱۱؎ گویا اگرایک فریق نے اپنے فرائض سے کوتاہی کی توپھر ازدواجی زندگی کاقیام واستحکام ناممکن ہے۔خاندان کی بقاء کاتقاضا ہے کہ فریقین اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی پر توجہ دیں۔طلاق کی نوبت آتی ہی اس وقت ہے جب کسی فریق کی جانب سے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی سرزدہوتی ہے۔ طلاق سے قبل کے لمحات ومراحل مسلمانوں میں ناخواندگی،نادانی،احکام شرع سے ناآشنائی اور دانشوروں واعظینکی غلط راہنمائی کی وجہ سے یہ غلط رواج عام ہو گیا ہے کہ بغیرسوچے سمجھے فوراً ہی طلاق دے دی جاتی ہے حالانکہ یہ اسلام کے قانون طلاق کی صریح خلاف ورزی ہے۔اگر یہ فعل کسی حقیقی اسلامی ریاست میں واقع ہوتوطلاق دینے والے کوسخت سزاملنی چاہیے۔اسلام دنیا کاواحدمذہب ہے جس کے قانون طلاق میں تدریج کااصول بنیادی حیثیت رکھتاہے۔اگرکوئی مسلمان اپنی بیوی کوطلاق دیناچاہتاہے تواس کواس عمل سے قبل چندلمحات ومراحل سے گزرناہوگا۔اوراس کے بعد ہی طلاق کامرحلہ آئے گا۔ان تدریجی مراحل کی تفصیل درج ذیل ہے۔ عورتوں کے احساسات وجذبات بڑے نازک ہوتے ہیں۔وہ نازک آبگینے کی مانندہیں کہ ذرا سی ٹھیس لگی اورٹوٹ گیااوریہی وجہ ہے کہ عورتیں معمولی باتوں پربرافروختہ ہوجاتی ہیں۔اوربسااوقات ان کی یہ برافروختگی شوہر کی نافرمانی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔عورتوں کی اس فطری کمزوری کی وجہ سے مردوں کویہ نصیحت کی گئی ہے کہ اگرعورتیں نافرمانی کریں تومشتعل نہ ہوں اورردعمل میں کوئی عاجلانہ فیصلہ نہ کربیٹھیں اورصبرسے کام لیں اورمردوں کی دانائی اس میں ہے کہ وہ ان کے ساتھ دلداری کامعاملہ کریں اورمحبت سے سمجھائیں۔اگراس کے باوجود نافرمانی سے باز نہ آئیں توانہیں خواب گاہ سے علیحدہ کردیاجائے۔یہ تدبیربھی ناکام ہوجائے اوروہ عدم تعاون کی روش اختیار کریں توپھر بادل نخواستہ ان کوجسمانی سزادی جائے۔شایداس طرح وہ رجوع کرلیں اورطلاق کی نوبت نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے۔ ﴿وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ فَعِظُوْہُنَّ وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْہُنَّ فَاِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَاتَبْغُوْا عَلَیْہِنَّ سَبِیْلًا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا﴾۱۲؎ ’’اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو،انہیں سمجھاؤ،خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور مارو پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہوجائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لئے بہانے تلاش نہ کرو یقین رکھو کہ اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے۔‘‘ بہت سی عورتیں اوربعض مردبھی یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے نافرمان عورتوں کو،جسمانی سزاکاحکم دے کر ان کی سخت توہین کی ہے۔یہ ان