کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 125
اسلام کاقانون طلاق اسلام ایک ایسا لاثانی دین ہے کہ جس نے ہر چیز کا دستور اورآئین ہمارے گوش گزار کیاہے۔اور قوانین پیش نہیں کیے،جو مختلف خرابیوں اور نقائص کے حامل ہوں بلکہ بیش بہا خصائل کے حامل قوانین ہیں۔ایساکیوں نہ ہوتا،اسلام کے قوانین اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ ہیں۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم ان کی توضیح وتشریح کرنے والے ہیں جو آج چودہ سو سال قبل سے لیکر قیامت کی در و دیوار تک قائم و دائم رہیں گے۔اور یہی اسلامی قوانین میں سے اسلام کاقانون طلاق ہے جویہاں پیش کیاجاتاہے۔ طلاق کی تعریف 1۔ السیدالسابق المصری نے’’طلاق ‘‘کی تعریف اس طرح کی ہے کہ طلاق اطلاق سے ماخوذ ہے۔جس کامطلب بھیجنا اورچھوڑنا ہے۔آپ کہیں گے ’اطلقت الاسیر‘ جب آپ قیدی کی بیڑیاں کھول دیں۔اور اس کوچھوڑدیں،شرع میں شادی کے رابطے کوتوڑنا اورتعلق زوجیت کوختم کرنے کانام طلاق ہے۔‘‘۱؎ 2۔ ڈاکٹر تنزیل الرحمن لکھتے ہیں: شوہر کی جانب سے اصالتایاوکالتا،نیابتا یاتفویضا مخصوص الفاظ کے ساتھ یا باطنہ،فی الفور یابالتبعہ رشتہ ازدواج ختم کرنے کانام طلاق ہے۔۲؎ 3۔ جمہور کے ہاں تعریف طلاق: ’’رفع قید النکاح اوربعضہ بلفظ مخصوص ‘‘نکاح کی قید یا اس کے بعض کوکسی خاص لفظ سے ختم کردینا طلاق کہلاتاہے۔‘‘۳؎ اس بات سے تمام دانشور،اہل علم وفضل آشنا ہیں کہ اسلام کے قانون طلاق کوموجودہ دور کے تمام قوانین طلاق پربرتر ی وفوقیت حاصل ہے۔اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ اول الذکر وحی پرمبنی قانون ہے۔یعنی اس کاماخذ خدائے علیم وخبیر کی ذات ہے۔جس میں کوئی تبدیل وتغییر ممکن نہیں۔اوراسی کے بنائے ہوئے قوانین آب وگل کی ہر چھوٹی بڑی چیز اپنے طبعی وظائف انجام دے رہی ہے۔اوراس میں حددرجہ توافق وسازگاری ہے کہیں معمولی قسم کابھی اختلاف ونزاع نہیں۔سب موجودات کی جبین نیاز اس حاکم مطلق کے آگے جھکی ہوئی ہے۔اوراس کے برخلاف دوسرا قانون وہ ہے جوانسان کے ذہن کا بنایا ہوا ہے جواپنے تمام حیرت انگیز کمالات کے باوجود بہر حال نقص وتغییر کے عیب سے خالی نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ارتقائی عمل رکھتاہے۔یعنی نقص سے گزر کر کمالات تک پہنچتاہے۔یہ کمال بھی مستقل،قائم بالذات نہیں ہے۔جو موجودہ زمانے میں کمال گردانا جاتاہے۔وہ آگے چل کر حالات کی تبدیلی سے ناقص بن جاتا ہے۔اس کااطلاق انسان کے وضع کردہ قوانین پرہوتاہے۔خواہ وہ کسی دور میں بنایاگیاہو اور بنانے والے کتنے ہی ماہر ین قانون ہوں۔