کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 12
’’بِمَا فَضَّلَ اللّٰہ بَعْضَھُمْ‘‘ کی تفسیر یہ ہے کہ مرد عقل و خرد اور غنائم کی تقسیم اور وراثت کی تقسیم میں عورتوں سے افضل ہیں اور ’’عَلَی بَعْضٍ‘‘ سے مراد عورتیں ہیں۔‘‘
تفسیر الکشاف میں ہے:
﴿اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ ﴾یقومون علیھن آمرین ناھین،کما یقوم الولاۃ علی الرعا یا وسموا قواما لذلک والضمیر فی﴿بعضھم﴾للرجال والنساء جمیعا یعنی انما کانوا مسیطرین علیھن بسبب تفضیل اللّٰہ بعضھم وھم الرجال علی بعض و ھم النساء وفیہ دلیل علی ان الولایۃ انما تستحق بالفضل،لا بالتغلب والاستطالۃ والقھر وقد ذکروا فی فضل الرجال:العقل،والحزم،والعزم،والقوۃ،والکتابۃ،فی الغالب،والفروسیۃ،والرمی،ان منھم الانبیاء والعلماء وفیھم الامامۃ الکبریٰ والصغریٰ والجھاد والأذان والخطبۃ والاعتکاف و تکبیرات التشریق عند ابی حنیفۃ،والشھادۃ فی الحدود والقصاص و زیادہ الھم والتعصیب فی المیراث والحمالۃ والقسامۃ والولایۃ فی النکاح والطلاق والرجعۃ وعدد الازواج والیھم الانتساب وھم اصحاب اللحی العمائم﴿بما انفقوا﴾وبسبب ما أخرجوا فی نکاحھن من اموالھم فی المھور والنفقات‘‘۵۲؎
’’اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ مرد،عورتوں کو دانشمندانہ طریقے سے حکم دینے کے لیے ان پر والی اورنگہبان مقرر کئے گئے ہیں جیسے رعایا اور عوام پر حکمران منتخب اور مقرر کئے جاتے ہیں۔اسی لیے ان کا نام ’’قوام‘‘ رکھتے ہیں اور مذکورہ آیت کریمہ میں جو ضمیر ہے وہ مرد اور عورتیں دونوں کو شامل ہے۔یعنی وہ دونوں قوم اور عوام کے معمار ہیں لیکن دونوں میں سے مردوں کو افضلیت سے نوازا گیا ہے اور اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ حکمرانی اور سربراہی کا حق فضیلت کی بنیاد پر ہوگا،نہ کہ قہرو اغلبیت کی بنیاد پر اور یہ بات عیاں ہے کہ مرد عورتوں سے افضل ہیں اور یہ فضیلت مردوں کو اس لیے دی گئی ہے کہ وہ عقل و خرد،فہم و فراست،عزم و ہمت،طاقت و قوت،جذبہ و حوصلہ اور گھڑ سواری ونیزہ بازی کے اعتبار سے ایک بلند مقام رکھتا ہے اور مردوں میں سے ہی انبیاء و رُسل مبعوث ہوئے اور امامت کبریٰ و صغریٰ مردوں کو ہی سونپی گئی اور یہ احکام جہاد،اذان،خطبہ،اعتکاف،تکبیریں جو ایام تشریق میں کہی جاتی ہیں اور حدود میں گواہیاں،قصاص،حصص کی زیادتی اور وراثت میں سے عصبہ بن کر حصہ لینا اور حمالہ،قسامہ اور نکاح و طلاق اور مرجوع کرنے کا حق مردوں کے پاس ہی ہے اور تعدد ازواج کا حق مردوں کو ہی حاصل ہے۔اور نسب نامے انہیں کی طرف مبعوث ہوتے ہیں اور وہ عقل و فہم کی وجہ سے قیادت و امارت اور سیادت کا حق رکھتے ہیں۔‘‘
’’اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ‘‘ کی تفسیر کا ماحصل
مذکورہ بالا آیت مبارکہ کی بے شمار تفاسیر کی گئیں جن میں سے بعض تفسیر بالماثور اور بعض تفسیر بالرائے ہیں ان تمام کو اگر بنظر عمیق دیکھا جائے تو ان سے جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’خاندانی نظام‘‘ اگر ترقی و کامرانی اور فوز و فلاح سے آراستہ ہوسکتا ہے اور تنزلی و پستی سے کنارہ کش ہوسکتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ خاندانی نظام کی امارت اور قیادت و سیادت مردوں کے ہاتھ میں دینا ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قوی قرار دیا ہے اور خاندان،کنبے،قبیلے،معاشرے اوردفاع دین اور فروغ دین کے لیے انہیں جہاد و قتال کا درس دیا ہے اور عورتوں کا جہاد،حج کو قرار دیا اور مردوں کوان کی عقل و فراست اور تدبر و فکر کے لحاظ سے بھی افضلیت کا درجہ حاصل ہے کیونکہ یہ معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے خاندانی روایات اور خاندانی نظام کی بقا و استحکام کے لیے تمام قسم کے خاندانی انقطاع کو صرف نظر