کتاب: اسلامی آداب و احکام - صفحہ 18
غسل اور وضو کے احکام جس شخص پر غسل واجب ہو اسے جُنْبی(ناپاک) کہا جاتا ہے، ایسا شخص (مردہو یاعورت)جب تک غسل نہیں کر لیتا پاک نہیں ہوتا نہ اس کی نماز وغیرہ قبول ہوتی ہے۔ ویسے تو پورے بدن پر پانی بہالینے کو غسل کہتے ہیں۔ لیکن شریعت میں اس کے ساتھ کچھ مزید چیزوں کا اعتبار کیاگیاہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت کی کتب حدیث میں جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں وہ اس طرح تر تیب وار ہیں۔ (۱)دونو ں ہاتھ دھلنا۔(۲)بائیں ہاتھ سے شر مگاہ دھلنا۔ (۳)بائیں ہاتھ کو زمین پر ر گڑکر (یاصابن سے)دھلنا(۴)وضوکرنا(۵)تین بار سر پر پانی ڈالنا اور انگلیوں سے بالوں کی جڑتک پانی پہنچانا۔(۶)پورے بدن پر پانی ڈالنا ،پہلے دا ہنی طرف پھر بائیں طرف۔ اس تفصیل اور تر تیب سے غسل جنابت مسنون ہے ۔البتہ اس میں چار چیزیں ایسی ہیں جو وجوب اور لزو م کا درجہ رکھتی ہیں ،یعنی جن کے بغیر غسل درست نہیں ماناجائے گا ۔ (۱) دل میں طہارت کی نیت کرنا۔ (۲) پورے بدن پر اس طرح پانی بہانا کہ معمولی حصہ بھی خشک نہ رہنے پائے۔(۳) کلی کرنا۔ (۴)ناک میں پانی ڈالنا۔ عورتیں اگر مضبوطی سے بالو ں کی چوٹی بنائے ہوں اور غسل جنابت کے وقت اسے کھولنا نہ چاہیں توکوئی حرج نہیں ،بشرطے کہ دھیان سے پانی بالوں کی جڑوں تک داخل کریں ۔البتہ ایسا صرف غسل جنابت کے وقت کر سکتی ہیں۔ لیکن حیض(ماہواری کے خون)اور نفاس (ولادت کے بعد کے خون )کے بعد جب غسل کریں تو اس میں بال کی چوٹیوں کو کھولنا ضروری ہے ۔ غسل کب کب واجب ہوتا ہے :(۱)جوش اور شہوت کے ساتھ منی نکلنے پر۔