کتاب: اسلامی آداب و احکام - صفحہ 11
ہے ۔ ﴿وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوَیo إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحَی﴾سورہ نجم :۳-۴ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش سے بات نہیں کہتے بلکہ وہ وحی ہوتی ہے جو آپ کے پاس بھیجی جاتی ہے ۔ اسی وجہ سے قرآن میں کہاگیا ہے کہ ﴿ وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا ﴾ سورہ حشر:۷ رسول جو کچھ تمہیں دیں (جوبتائیں ، حکم دیں)اسے لے لو (اس پر عمل کرو )اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ ۔ اسی مفہوم کی اور بھی آیتیں ہیں جیسے ﴿ مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہَ﴾سورہ نساء : ۸۰ ﴿وَأَطِیْعُواْ اللّٰهَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ ﴾سورہ مائدہ :۹۲ اب اگر کوئی شخص صرف قرآ ن کو ماننے کا دعو یٰ کرے اور حدیث کو نہ مانے وہ مسلمان نہیں ہو سکتا ،وہ حدیث کے ساتھ قرآن کو بھی نہیں مانتا ۔کیونکہ قرآن ہی میں حدیث کو ماننے کا حکم دیا گیا ہے ۔ کسی بھی حدیث کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ،عمل یا عمل پر خاموشی قرار دینے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ حدیث مقبول یعنی صحیح ہو ، ضعیف ، منکر یا موضوع (من گھڑت)نہ ہو۔کیوں کہ حدیث سے ثابت شدہ بات دین کا جزء بنتی ہے ۔اب اگر وہ حدیث ہی ثابت نہ ہو گی تو اس سے ثابت ہونے والاعمل کیا حیثیت رکھے گا ۔کون سی حدیث مقبول یعنی صحیح یا حسن درجے کی ہے اور کون غیر مقبول (ضعیف ، موضوع) ہے یہ کام حدیث کے ماہرین کے بیان کرنے کا ہے ۔ اس کے اصول و ضوابط مقرر ہیں جن کی روشنی میں یہ ماہر محدثین حدیث کی چھان بین کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ فلاں حدیث قابل عمل ہے اور فلاں نہیں ۔عربی زبان میں صدیوں پہلے علماء اس پر کتابیں لکھ چکے ہیں ۔ اردو میں بھی اس موضوع پر کتابیں آرہی ہیں۔واضح رہے کہ بخاری