کتاب: اسلام پر 40 اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب - صفحہ 96
اس کا بھائی اس کا وراث ہو گا۔لیکن اگر بہنیں دو (یا زیادہ) ہوں تو بھائی کے ترکے میں ان کے لیے دو تہائی ہے۔ اور اگر کئی بھائی بہن، مرد اور عورتیں (وارث) ہوں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہو گا۔ اللہ تمھارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ۔ اوراللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘[1] عورت کاحصہ برابر بلکہ’’ دوگنا‘‘ بھی ہو سکتا ہے وراثت کی اکثر صورتوں میں عورتوں کو مردوں سے نصف ملتا ہے، تا ہم یہ ہمیشہ نہیں ہوتا۔ اگر مرنے والے کے ماں باپ یا کوئی بیٹا بیٹی نہ ہوں لیکن اخیافی (ماں کی طرف سے سگے) بھائی اور بہن ہوں تو دونوں میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ اور اگر مرنے والے نے بچے چھوڑے ہوں تو ماں اور باپ دونوں میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ بعض صورتوں میں ایک عورت کو مرد کی نسبت دو گنا حصہ بھی مل سکتا ہے۔ اگر مرنے والی عورت ہو اور اس کے بچے اور بھائی بہن نہ ہوں اور اس کا شوہر اور ماں باپ وارث ہوں تو شوہر کو آدھی جائیداد جبکہ ماں کو تیسرا حصہ اور باپ کو باقی چھٹا حصہ ملے گا۔[2] اس معاملے میں بھی ماں کا حصہ باپ سے دوگنا ہے۔ مردوں کی نسبت خواتین کاحصہ نصف کب ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ عام قاعدے کے مطابق عورتیں مرد کی نسبت وراثت میں آدھا حصہ لیتی
[1] النساء : 176/4 [2] علمائے وراثت کے نزدیک یہ مسئلہ ’’عمریتین‘‘ کے نام سے معروف ہے اور اس میں متوفیہ کی ماں کو خاوند کا حصہ ادا کرنے کے بعد باقی مال کا ایک تہائی ملتا ہے جبکہ باپ کو باقی مال کا دو تہائی ملتا ہے جو عورت کے حصے سے دو گنا ہی ہے ، ڈاکٹر صاحب موصوف کی رائے درست معلوم نہیں ہوتی۔ دیکھیے: ’’فقہ المواریث ‘‘ و ’’تفہیم المواریث ‘‘استاذ فاروق اصغر صارم