کتاب: اسلام پر 40 اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب - صفحہ 71
ہندوؤں کے وید، رامائن، مہا بھارت یا گیتا ہوں، یا یہودیوں کی تالمود یا عیسائیوں کی بائبل ہو، ان کتابوں کے مطابق ایک آدمی جتنی شادیاں چاہے کر سکتا ہے۔یہ تو بہت بعد کی بات ہے کہ ہندو پنڈتوں اور عیسائی کلیسا نے بیویوں کی تعداد ایک تک محدود کر دی۔ بہت سی ہندو مذہبی شخصیات جن کا ان کی کتابوں میں ذکر ہے، ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے تھے۔ رام کے باپ راجہ دسرتھ کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں، اسی طرح کرشن کی بہت سی بیویاں تھیں۔ شروع میں عیسائی مردوں کو بھی اجازت تھی کہ وہ جتنی چاہے بیویاں رکھ سکتے ہیں کیونکہ بائبل میں بیویوں کی تعداد کے بارے میں کوئی پابندی نہیں۔ یہ تو محض چند صدیوں پہلے ہوا کہ چرچ نے بیویوں کی تعداد محدود کر کے ایک کر دی۔ یہودیت میں بھی ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔ یہودیوں کے تالمودی قانون کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تین بیویاں تھیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی سینکڑوں۔[1]کثیر ازواجی اس وقت تک جاری رہی جب رِبّی گرشوم بن یہودا (960ء تا 1030ء) نے ایک فرمان کے ذریعے سے زیادہ شادیوں پرپابندی لگا دی مگر مسلم ممالک میں رہنے والے سیفارڈی یہودیوں نے 1950ء تک اس پر عمل درآمد جاری رکھا حتی کہ
[1] بائبل کی اس بات کی تصدیق درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے :’’ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ سلیمان علیہ السلا م نے کہا کہ میں آج رات اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ان میں سے ہر ایک، ایک سوار جنے گی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا۔ آپ کے کسی ساتھی نے کہا: ان شاء اللہ کہیں مگر انھوں نے یہ نہ کہا تو اُن میں سے کوئی بھی حاملہ نہ ہوئی سوائے ایک کے، اور اس نے بھی ادھورا بچہ جنا۔ اس پروردگار کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی جان ہے! اگر وہ ان شاء اللہ کہہ لیتے تو سب کے ہاں بچے ہوتے اور وہ سوار ہو کر اللہ کی راہ میں جہاد کرتے۔‘‘ (صحیح البخاری، الأیمان والنذور، باب کیف کانت یمین النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حدیث :6639)