کتاب: اسلام پر 40 اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب - صفحہ 50
تَنْفَعُ،وَلَوْلَا أَ نِّی رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ اللّٰه صلى اللّٰه عَلَيْهِ وَسلمیُقَبِّلُکُ مَا قَبَّلْتُکَ ] میں یقینا جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ تو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا۔‘‘ [1] کعبے کی چھت پر اذان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لوگ کعبہ کی چھت کے اُوپر کھڑے ہو کر اذان دیتے تھے۔[2] اب جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان کعبہ کو پوجتے ہیں توبھلا کون سا بتوں کو پوجنے والا اس بُت کے اُوپر کھڑا ہوتا ہے جس کی وہ پوجا کرتا ہے؟[3]
[1] صحیح البخاری، الحج، باب ماذکر فی الحجر الأسود، حدیث :1597 [2] تجلیات نبوت ، ص : 226 [3] اسلام میں پوجنے اور عبادت کرنے کا تصور صرف ذات باری تعالیٰ کے لیے ہے۔ حجر، شجر، شخصیات یا استھان کی پوجا کا تصور اسلام میں نہیں پایا جاتا۔ اسلام نے تو ایسی جگہ پر بھی عبادت سے روک دیا ہے جہاں اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کا شبہ پیدا ہو سکتا ہو، مثلاً قبرستان میں نماز ادا کرنا، یا ایسی جگہ عبادت کرنا جہاں غیراللہ کی عبادت کی جاتی ہو، ممنوع ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ کسی دور میں کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ مسلمانوں نے کسی مکان یا عمارت کی عبادت کی ہو۔ اسلام میں اگر اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کا تصور ہوتا تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم اس لائق تھے کہ آپ کی قبر کو قبلہ بنایا جاتا اور اس کی عبادت کی جاتی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سے منع کر دیا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے، پھر یہ بات بھی ہے کہ بتوں کے پجاری تو بت خانے میں جا کر عبادت کرتے ہیں یا ان بتوں کے ماڈل بنا کر سامنے رکھتے ہیں جب کہ مسلمان قبولیت عبادت کے لیے خانہ کعبہ جانے کو شرط قرار دیتے ہیں نہ اس کا ماڈل اپنے سامنے رکھنا جائز سمجھتے ہیں۔ وہ تو جہتِ کعبہ کو سامنے رکھ کہ کعبہ کے بجائے رب کعبہ کی عبادت کرتے ہیں ۔ ( عثمان منیب)