کتاب: اسلام پر 40 اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب - صفحہ 41
اسلامی شریعت نافذ کی جاتی ہے اور ہر امیر آدمی نصاب کے مطابق، یعنی 85گرام سونے سے زائد مال پر ہر سال زکاۃ ادا کرتا ہے اور ہر چور کا ہاتھ سزا کے طور پر کاٹ دیا جاتا ہے تو کیاامریکہ میں چوری اور ڈکیتی کی شرح بڑھ جائے گی، کم ہو جائے گی یا اتنی ہی رہے گی؟ یقینا یہ کم ہو گی۔ مزید برآں یہ سخت قانون ممکنہ چوروں کوارتکابِ جُرم سے روکنے میں مددگار ثابت ہو گا۔
میں اس بات سے متفق ہوں کہ اس وقت دنیا میں چوری کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اگر قطع ید کی سزا نافذ کی گئی تو لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے ہاتھ کٹیں گے۔ لیکن یہ نکتہ پیشِ نظر رہے کہ جونہی آپ اس قانون کو نافذ کریں گے، چوری کی شرح فوری طور پر کم ہو جائے گی، تا ہم اس سے پہلے اسلام کا نظامِ زکاۃ کار فرما ہو اور معاشرے میں صدقات و خیرات اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے اور غریبوں اور ناداروں کی مدد کا جذبہ فراواں ہو اور پھرسزاؤں کا نظام نافذ ہو تو چوری کرنے والا چوری کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا کہ وہ اپنا ہاتھ کٹنے کا خطرہ مول لے رہا ہے۔ عبرتناک سزا کا تصور ہی ڈاکوؤں اور چوروں کی حوصلہ شکنی کرے گا۔ بہت کم لوگ چوری کریں یا ڈاکہ ڈالیں گے، پھر چند ہی عادی مجرموں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے اور لاکھوں لوگ چوری اور ڈکیتی کے خوف کے بغیر سکون سے رہ سکیں گے۔ اس طرح اسلامی شریعت کے عملی نفاذ سے خوشگوار نتائج بھی برآمد ہوں گے۔
عورتوں کی عصمت دری کا سد باب
تمام بڑے مذاہب کے نزدیک عورتوں سے چھیڑ چھاڑ اور ان کی عصمت دری ایک سنگین جرم ہے۔ اسلام کی بھی یہی تعلیم ہے، پھر اسلام اور دوسرے مذاہب کی تعلیمات میں فرق کیا ہے؟ فرق اس حقیقت میں مضمر ہے کہ اسلام محض عورتوں کے احترام کی تلقین ہی نہیں کرتا اور