کتاب: اسلام پر 40 اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب - صفحہ 34
دوسروں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے مکالمہ اور بحث مباحثہ ناگزیر ہے۔ قرآنِ عظیم میں ربِّ جلیل نے فرمایا:
﴿ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ﴾
’’(اے نبی!) لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھے وعظ کے ساتھ دعوت دیجیے اور ان سے احسن طریقے سے بحث کیجیے۔‘‘[1]
ایک غیر مسلم تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ اسلام کے مثبت طرزِ عمل اور فطرت کے بارے میں بتایا جائے۔ اکثر غیر مسلم اسلام کی سچائی کے قائل نہیں ہوتے ۔ دراصل ان کے دماغ کے کسی گوشے میں کئی ایسے سوالات موجود ہوتے ہیں جن کا انھیں جواب نہیں ملتا۔
وہ اسلام کے مثبت طرزِ عمل اور فطرت کے بارے میں آپ کے نقطۂ نظر سے متفق ہو سکتے ہیں مگر اگلے ہی سانس میں وہ کہیں گے: ’’لیکن آپ تو وہی مسلمان ہیں جو ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیں، آپ وہی لوگ ہیں جو عورتوں کو پردے کے پیچھے محکوم و مغلوب رکھتے ہیں، آپ بنیاد پرست ہیں۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
میں اپنے ملنے والے اُن غیر مسلموں سے، جن کا علم محدودو ہوتا ہے، یہ پوچھنے کو ترجیح دیتا ہوں کہ آپ اسلام میں کس چیز کو غلط محسوس کرتے ہیں۔ میں ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ وہ کھل کر بات کریں اور انھیں قائل کرتا ہوں کہ میں اسلام کے متعلق تنقید سن سکتا ہوں۔
پچھلے چند برسوں میں دعوتِ دین کے تجربے کے دوران میں مجھے یہ احساس ہوا کہ انیس بیس سوالات ایسے ہیں جو غیر مسلم عام طور پر اسلام کے حوالے سے پوچھتے ہیں۔ جب آپ
[1] النحل:16/125