کتاب: اسلام پر 40 اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب - صفحہ 209
ترتیب و ترکیب کے ساتھ اس پر عبور حاصل کرنا چاہے تواسے اس کے لیے ساری عمر وقف کرنی پڑے گی۔ ادھر ارون شوری ہے جو قرآن کی دوآیات کے سرسری اور سطحی مطالعے سے اور شرعی معیارات سے واقفیت حاصل کیے بغیرہی اس قانون کو جاننے کی توقع رکھتا ہے۔
اس کی حالت اس شخص جیسی ہے جو الجبرے کی ایک مساوات حل کرنے کا خواہاں ہے، حالانکہ وہ ریاضی کے بنیادی قواعد(Bodmas)بھی نہیں جانتا جن کے مطابق قطع نظر اس بات سے کہ ریاضی کی کون سی علامت پہلے آئی ہے ، پہلے آپ کو Bodmas حل کرنا ہوگا ،یعنی پہلے بریکٹیںحل کرنی ہوں گی، دوسرے مرحلے پر تقسیم کا عمل کرنا ہوگا، تیسرے پر ضرب کا عمل، چوتھے پر جمع کا اور پانچویں مرحلے پر تفریق کا عمل انجام دینا ہوگا۔ اگرارون شوری ریاضی سے نابلد ہے اور وہ مساوات کے حل کا عمل ضرب سے شروع کرتا ہے، پھر تفریق کا عمل کرتا ہے اس کے بعد بریکٹوں کودور کرنے کا عمل انجام دیتا ہے، پھر تقسیم کی طرف آتا ہے اورآخر میں جمع کا عمل بروئے کار لاتا ہے تو یقینا اس کا جواب غلط ہی ہوگا۔
اسی طرح جب قرآن مجید سورۂ نساء کی آیات نمبر11اور 12میںقانون وراثت بیان کرتا ہے تو اگرچہ سب سے پہلے اولاد کے حصے کاذکر کیاگیا ہے اوراس کے بعد والدین اورمیاں یا بیوی کے حصے بیان ہوئے ہیں لیکن اسلامی قانون وراثت کے مطابق سب سے پہلے قرض اور واجبات ادا کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد والدین اور میاں یا بیوی کا حصہ ادا کیا جاتا ہے جو اس امر پر منحصر ہے کہ مرنے والے نے اپنے پیچھے بچے بھی چھوڑے ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد بچنے والی جائداد بیٹوں اور بیٹیوں میں مقررہ حصوں کے مطابق تقسیم کی جاتی ہے، لہٰذا کل حصص کے مجموعے کا ایک سے بڑھ جانے کا سوال کہاں پیدا ہوا؟ [1]
[1] قانونِ وراثت کے عام مسائل تو سیدھے ہیں ان میں جتنے حصص ہوں وہ مخرج کے حساب سے ورثاء پر تقسیم ہو جاتے ہیں ۔ لیکن بعض اوقات ورثاء کے حصص مخرج سے بڑھ جاتے ہیں ۔ اس میں مناسب عدد کا اضافہ کرکے مخرج کو حصص کے برابر کر لیا جاتا ہے ۔ اصطلاح میں اسے ’’عَوْل‘‘ کہتے ہیں ۔ اس سے یہ فرق پڑتا ہے کہ ورثاء کا حصہ کچھ کم ہو جاتا ہے ۔ عول کا سب سے پہلے فتویٰ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دیا۔ اکثر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے قبول کیا سوائے چند ایک کے ۔ ان میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے: مرنے والی خاتون اپنے پیچھے، خاوند اور دو سگی بہنیں وارث کے طور پر چھوڑ جاتی ہے۔ خاوند کا حصہ نصف بہے اور دوسگی بہنوں کا حصہ دو تہائی (ح)ہے۔ یہاں اصل مسئلہ (ذواضعاف اقل ) 6ہے ۔ خاوند کو نصف (تین حصے) ملے گا اور بہنوں کے لیے 2تہائی (چار حصے)ہے۔ اب اس مسئلے میں ’’عول‘‘ آگیا ، یعنی مخرج تنگ ہو گیا جس کی بنا پر حصص بڑھا دیے ، پہلے 6تھے اب 7ہو گئے ۔ اس طرح چند صورتیں اور بھی ہیں جن میں عَول آتا ہے۔ اور یہ عَول کا آنا ریاضی کے قانون سے ناواقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ یہ ایک تقدیری مسئلہ ہے کہ مُوَرِّث کی موت کے وقت کون سا وارث زندہ ہے ۔ ان میں سے جو زیادہ حق دار ہے اسی کو وراثت میں سے حصہ ملے گا۔ بعض دفعہ مخرج کے مطابق نکالے ہوئے حصص بچ جاتے ہیں وہ اصحاب الفروض میں سوائے زوجین کے ، تقسیم کر دیے جاتے ہیں ۔( تفصیل کے لیے دیکھیے تفہیم المواریث از استاذ فاروق اصغر صارم)