کتاب: اسلام پر 40 اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب - صفحہ 200
اعتدال ربیعی و خریفی (Equinox)کے نام سے معروف ہیں، ایسے ہیں جب سورج عین مشرق سے طلوع ہوتا ہے،یعنی خط استوا پر سفر کرتا ہے۔ باقی تمام دنوں میں عین مشرق سے قدرے شمال یا قدرے جنوب کی طرف ہٹ کر طلوع ہوتا ہے۔ موسم گرما کے دوران میں22جون کو سورج مشرق کی ایک انتہا سے نکلتا ہے (خط سرطان پر سفر کرتا ہے) تو موسم سرما میں بھی ایک خاص دن، یعنی 22دسمبر کو سورج مشرق کی دوسری انتہا سے نکلتا ہے (خط جدی پر سفر کرتا ہے)۔ اس طرح سورج موسم گرمامیں (22جون) اور موسم سرما میں (22دسمبر) کو مغرب میں دو مختلف انتہاؤں پر غروب ہوتا ہے۔[1]فطرت کا یہ مظاہرہ کسی بھی شہر میں رہنے والے لوگ بآسانی دیکھ سکتے ہیں یاکسی بلند و بالا عمارت سے سورج کے اس طلوع و غروب کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ نظارہ کرنے والے لوگ دیکھیں گے کہ سورج گرمیوں میں 22جون کو مشرق کی ایک انتہا سے نکلتاہے تو سردیوں میں 22دسمبر کو ایک دوسری انتہا سے۔ مختصر یہ کہ سارا سال سورج مشرق کے مختلف مقامات سے نکلتا ہے اور مغرب کے مختلف مقامات پر غروب ہوتا رہتا ہے، لہٰذا جب قرآن اللہ کاذکر دومشرقوں اور دو مغربوں کے رب کے طورپر کرتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ مشرق اور مغرب دونوں کی دونوں انتہاؤں کا رب اور مالک ہے۔
[1] زمین پر خط استوا کا عرض بلد صفر ہے جوزمین کو دو برابر نصف کروں میں تقسیم کرتا ہے۔ خط استوا کے شمال میں خط سرطان کا عرض بلد 23.5درجے شمالی ہے اورخط استوا کے جنوب میں خط جدی کا عرض بلد23.5درجے جنوبی ہے۔سورج بظاہر انھی دو عرض بلاد کے درمیان سفر کرتا نظرآتا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ زمین کی محوری گردش (لٹو کی طرح مغرب سے مشرق کو گھومنے) کے دوران میں سال کے مختلف اوقات میں اس کے مختلف مقامات سورج کے براہ راست سامنے آتے ہیں۔ سال میں دوبار 21مارچ اور 23ستمبر کو سورج خط استوا پر عموداً چمکتا ہے (بظاہر خط استوا پر سفر کرتا نظر آتا ہے) جبکہ 22 جون کو سورج کی شعاعیں خط سرطان پر عموداً پڑتی ہیں اور 22 دسمبر کو سورج خط جدی پر عموداً چمکتا ہے۔(محسن فارانی)