کتاب: اسلام پر 40 اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب - صفحہ 190
50ہزار اور ایک ہزار سال کی حقیقت
سورۃ السجدۃ کی مذکورہ بالا آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تک تمام امور کو پہنچنے میں ہمارے حساب کے مطابق ایک ہزار سال کا عرصہ لگتا ہے جبکہ سورۃ المعارج کی آیت: 4کا مفہوم یہ ہے کہ فرشتوں اور رُوح القدس یا ارواح کو اللہ تعالیٰ تک پہنچنے میں پچاس ہزار برس کا عرصہ درکار ہوتاہے۔[1]
ضروری نہیں کہ دومختلف افعال کے انجام پانے کے لیے یکساں مدت درکارہو۔مثال کے طورپر مجھے ایک مقام تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگتا ہے جبکہ دوسرے مقام تک سفر کے لیے 50گھنٹے درکار ہیں تواس سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ میں دو متضاد باتیں کررہا ہوں۔
یوں قرآن کی آیات نہ صرف ایک دوسری کے متضاد نہیں بلکہ وہ مسلمہ جدید سائنسی حقائق سے بھی ہم آہنگ ہیں۔
[1] قرآن میں بیان کیے گئے وقت کا پیمانہ عام انسانوں کے لحاظ سے ہے ۔ فرشتوں خاص طور پر حضرت جبریل علیہ السلام اور ان کے ساتھ والے فرشتوں کے لیے یہ وقت ایک دن یا اس سے بھی کم ہے جبکہ انسانوں کو اتنا فاصلہ طے کرنے میں ایک ہزار سال لگ سکتے ہیں ۔
باقی رہا پچاس ہزار سال کا دن تو فرشتے خصوصًا جبریل علیہ السلام زمین سے سدرۃ المنتہٰی تک کا فاصلہ ایک دن یا سے بھی کم مدت میں طے کر لیتے ہیں جبکہ عام انسانی پیمانے سے یہ فاصلہ پچاس ہزار سال میں طے کیا جا سکتا ہے ۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ زمین سے عرش تک جو امور پہنچائے جاتے ہیں وہ ایسے وقت میں پہنچتے ہیں کہ عام لوگوں کو اس میں پچاس ہزار سال لگ جائیں ۔ مفسرین کے ایک قول کے مطابق قیامت کا دن کفار اور نافرمانوں پر ایک ہزار سال یا پچاس ہزار سال جتنا بھاری ہو گا، البتہ مومنوں کے لیے وہ ایک دن یا اس سے کم تکلیف کا باعث ہو گا، جیسے حدیث میں ہے کہ یہ وقت ظہر سے عصر تک کا ہو گا یا صرف اس قدر ہو گا جس قدر کوئی نماز میں وقت لگاتا ہے (مسند أحمد: 75/3وابن حبان :7334)تفصیل کے لیے دیکھیے تفسیر فتح البیان، تفسیر الخازن اور تفسیر روح المعانی وغیرہ۔