کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 99
ابوبکر خطاط کہتے ہیں کہ ایک فقیہ شخص کا خط بہت بھدا تھا دوسرے فقہا اس پر بد خطی کا عیب لگایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ کوئی خط تمہارے خط سے زیادہ بھدا نہیں ہو سکتا وہ ان کے اعتراض سے جھلایا کرتا تھا، ایک دن بازار میں اس کی ایک مجلد کتاب پر نظر پڑی جو فروخت ہورہی تھی، اس کا خط اس کے خط سے بھی بدتر تھا، تو اس نے کشادہ دلی سے اس کی قیمت دی اور اس کو ایک دینار اور ایک قیراط میں خریدلیا اور اس کتاب کو لے کر آیا تاکہ فقہا پر اس حجت قائم کرے جب وہ اس کو پڑھیں، جب یہ ان کے پاس آیا تو پھر انہوں نے اس کی بدخطی کا ذکر شروع کر دیا اور اس نے کہا(تمہارا یہ کہنا غلط ہے کہ میرے خط سے زیادہ برا کوئی خط نہیں ہو سکتا) مجھے ایسا خط مل گیا ہے جو میرے خط سے بھی بھدا ہے اور میں نے اس کے خریدنے پر بہت بڑی قیمت صرف کی ہے تاکہ تمہارے اعتراضات سے چھٹکارا ملے اور وہ کتاب ان کے آگے رکھ دی، انہوں نے اس کے صفحات الٹنے شروع کردیے، جب آخر پر نظر پڑی تو اس پر ان ہی حضرت کا نام لکھا ہوا تھا انہوں نے اس کتاب کو بھی جوانی میں لکھا تھا، ان کو دکھایا تو بہت شرمندہ ہوئے۔ مولانا ثناء للہ امرتسری ہندوستان کے جید علماء میں سے ہیں۔ ایک مرتبہ ان کا شیعوں سے مناظرہ ہوا شیعوں کا مؤقف تھا کہ وہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود تھے، طے شدہ وقت کے مطابق مولانا تشریف لائے، اسٹیج پر جاتے ہوئے اپنا جوتا بغل میں دبا لیا حاضرین کو یہ بات بری محسوس ہوئی، انہوں نے پوچھا مولانا صاحب سمجھ دار ہونے کے باوجود یہ کیسی معیوب حرکت ہے، انہوں نے کہا کہ بھائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں شیعہ جوتے چور تھے، اس لیے میں نے اپنا جوتا سنبھالا ہے کہ کہیں چوری نہ ہوجائے۔ شیعہ