کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 97
تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے تھے۔ بے کار لوگوں کا آنا پسند نہیں کرتے تھے، تھوڑی دیرتک وہ صاحب ادھر ادھر کی باتیں کرکے رخصت ہوگئے اور مولانا پھر اپنے کام میں مشغول ہوگئے۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ وہ صاحب پھر آگئے جس پر مولانا نے دریافت کیا:’’ کہیے......کچھ کہنا بھول گئے تھے.......؟ وہ صاحب جواب میں بولے۔ ’’نہیں..... میں بھولے سے اٹھ کر چلا گیا تھا۔‘‘- مزاحیات کا انسائیکلو پیڈیا) عیسیٰ بن عمر نے بیان کیا کہ ایک اعرابی کو بحرین کا والی (گورنر) بنا دیا گیا اس نےوہاں کے سب یہودیوں کو جمع کر لیا اور کہا کہ تم عیسیٰ بن مریم کے بارے میں کیا کہتےہو، ان لوگوں نے کہا ہم نے ان کو قتل کرکے سولی پر لٹکا دیا، یہ سن کر اس نے کہا پھر تو یہ ضروری بات ہے کہ تم نے اس کی دیت (خون بہا) ادا کی ہوگی؟ ان لوگوں نے جواب دیا’’ نہیں‘‘ اعرابی نے کہا واللہ تم یہاں سے جانہیں سکتے جب تک اس کی دیت نہ دے دو گے، پھر جب تک ان سے دیت نہ وصول کی جانے نہ دیا۔( کتاب الاذکیا، از امام جوزی رحمتہ اللہ علیہ) فراق ، حکیم ناطق لکھنوی کے مطب میں بیٹھے ہوئے تھے۔ حکیم صاحب نے جیسے ہی ایک مریض کا طبی معائنہ ختم کیا مریض نے سوال کیا: ’’ کھانے پینے کے سلسلے میں کچھ پرہیز بھی بتائیں گے؟‘‘ ’’گرم چیزوں سے پرہیز کیجیے گا‘‘ حکیم صاحب بولے۔