کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 96
ابواسحاق صابی سے حکایت ہے کہ ایک مشہور عجمی کاتب جو ابوالعباس ابن درستویہ کے نام سے معروف تھا، ابو الفرج محمد بن عباس کی مجلس میں حاضر ہوا وہ اپنے والد ابوالفضل کی تعزیت کے لیے بیٹھا تھا اس کی موت کی خبر اہواز سے پہنچی تھی، ابوالفرج کے گرد مملکت کےرئیس اور زعماء بیٹھے تھے یہ اپنے باپ کےبعد دیوان کا والی بن گیا تھا، جب ابن درستویہ اس کی مجلس میں بیٹھا تو اس نے روتے ہوئے کہا کہ یہ افواہ پر مبنی خبرہے، تو ابوالفرج نے کہا نہیں کئی خطوط آچکے ہیں ، کہ ان کا انتقال ہوچکا ہے اس نےکہا ان سب کو چھوڑو یہ بتاؤ تمہارے اپنے والد کا لکھا کوئی خط آیا تو ابوالفرج نے کہا کہ اگر ان کالکھا ہوا خط آتا تو ہم یہاں تعزیت کے لیے کیوں بیٹھتے لوگ سب ہنسنے لگے۔ (حماقت اور اس کے شکار اردو ترجمہ اخبار الحمقی ابن الجوزی رحمتہ اللہ علیہ )
فراق کے پاس لوگ طرح طرح کے فرمائشیں لے کر آیا کرتے تھے، ان میں وہ شاعر بھی ہوتے تھے جو اپنا مجموعہ کلام شائع کرانے والے ہوتے تھے اور چاہتے تھے کہ فراق ان کی کتاب پر لکھ دیں..... کچھ بھی تاکہ بازار میں اس کی قیمت میں اضافہ ہوجائے۔ ایک شاعر کسی دور دراز مقام سے آیا اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا:’’ میری غزلیں ہندوستان کے تمام رسالوں میں چھپتی رہی ہیں آپ نے پڑھا ہوگا؟‘‘ فراق تیوری چڑھا کر بولا: ’’ ان میں بواسیر کے اشتہار بھی چھپتےہیں تو کیا میں سب پڑھتا ہوں؟‘‘
ایک صاحب مولانا عبدالحلیم شرر سے ملنے گئے ، صبح کا وقت تھا۔ مولانا