کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 94
جلدی سے ٹوپی پہن لی، اور کہنے لگے: ’’ سبحان اللہ! بچپن میں بزرگوں سے سنا کرتے تھے، وہ بات سچ ہے کہ ننگے سرکھانا کھاتے ہیں تو شیطان دھولیں مارتا ہے۔‘‘ الہ آباد کے مشاعرے میں فراق کو اپنی عادت کے خلاف کافی دیر بیٹھنا پڑا اور دوسرے شاعروں کو سننا پڑا۔ فراق کی موجودگی میں جن شاعروں نے پڑھا وہ سب اتفاق سے پاٹ دار آواز اور گلے باز تھے۔ باری باری آئے اور پھیکی غزلوں کی سرتال پر گا کر چلے گئے۔ جب فراق کا نام پکارا گیا توسب شاعر ایک قطار سے ان کے سامنے ہی بیٹھے تھے۔ فراق مائیک پر آئے ان شاعروں کی طرف ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی اور اعلان کیا: ’’ حضرات آپ اب تک قوالی سن رہے تھے، اب شعر سنیے۔‘‘ ابراہیم بن المنذر الحزامی نے یہ قصہ سنایا کہ ایک دیہاتی صحرائی عرب کے باشندوں میں سے ایک شہری کے یہاں آیا اس نے اس کو اپنے یہاں بطور مہمان ٹھہرایا، اس کے پاس بہت مرغیاں تھیں اور اس کے گھر والوں میں ایک بیوی اور دوبیٹے اور بیٹیاں تھیں یہ شہری میزبان بیان کرتا ہے کہ میں نے اپنی بیوی سے کہا آج ناشتہ کے لیے مرغی بھون کر لے آنا، جب ناشتہ تیار ہوکر آگیا تو میں اور میری بیوی اور دونوں بیٹے اور دونوں بیٹیاں اور وہ اعرابی سب ایک دسترخوان پر بیٹھ گئے ہم نے وہ بھنی ہوئی مرغی اس کے سامنے کردی اور کہا آپ ہمارے درمیان تقسیم کردیں۔ اس نے کہا: تقسیم کرنے کا کوئی احسن طریقہ تو میں نہیں جانتا، لیکن اگر تم میری تقسیم پر راضی ہو تو میں سب پر تقسیم کرنے کو تیار ہوں۔ ہم نے کہا ہم سب راضی ہیں، اب اس نے مرغی کا سر پکڑا کاٹا اور وہ مجھے دیا اور کہا رائیں (یعنی سر)