کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 93
"میں نے پاکستان کا ترانہ لکھا ہے۔" دکاندار نے رسمی طور پر تعریف کے انداز میں سر ہلایا۔ اس پر حفیظ صاحب نے اسے یاد دلایا کہ وہ شاہنامہ اسلام کے خالق ہیں مگر دکاندار نے پھر بھی انھیں خاص اہمیت نہ دی۔ حفیظ جالندھری نے یہ صورت حال دیکھی تو جھنجلا کر کہا: "بھئی میں ابو الاثر حفیظ جالندھری ہوں۔"
یہ سن کر دکاندار نے نہایت گرم جوشی سے ان سے مصافحہ کیا اور بولا: "آپ سے مل کر بے حد خوشی ہوئی میں بھی جالندھر کا ہوں۔"
ابن الاعرابی سے منقول ہے کہ ایک عرب دیہاتی نے اپنے بھائی سے کہا کہ کیا تو دودھ کی چھاچھ کھنکارے ہوئے پی سکتا ہے؟ اس نے کہا ہاں! دونوں نے اس شرط پر ایک رقم طے کرلی جب اس نے پیا تو گلے میں تکلیف ہوئی تو اس نے (کھنکھارنے کی ترکیب نکالی اور) کہا کبش املح و نبت اقبح و انا فیہ اسجح (ان کلمات سے معنی مقصود نہیں، معنی یہ ہیں مینڈھا چت کبرا ہے اور گھاس خراب ہے اور میں اس میں نرمی اختیار کر رہا ہوں، مقصود کھنکھار کا بدل ح کو بنانا ہے) بھائی نےکہا تو کھنکھار رہا ہے تو اس نے کہا: من تخنح فلا افلح (جو کھنکھارے گا وہ نفع میں نہ رہے گا ایسے الفاظ سے جواب دیا کہ پھر کھنکھار پیدا ہوگئی۔)(لطائف علمیہ، اردو ترجمہ کتاب الاذکیا)
ایک دن سید انشاء اللہ خاں انشاء نواب صاحب کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ گرمی سے گھبراکر دستار سر سے اتار کر رکھ دی تھی۔ منڈا ہوا سر دیکھ کر نواب صاحب کی طبیعت میں چہل آئی، ہاتھ بڑھا کر پیچھے سے ایک دھول ماری۔ انشا نے