کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 92
’’ناممکن ہے۔‘‘
احباب میں سے ایک نے بات کاٹتے ہوئے فوراً تردید کردی۔
’’سنیے تو !‘‘
قتیل نے مسکراتے ہوئے کہنا شروع کیا:
’’ہوا یوں کہ انتہائی خاطر و مدارات کے بعد جب اسلم صاحب اپنا نیا افسانہ سنانے کے موڈ میں آنے لگے تو انہوں نے کہا: ’’ قتیل صاحب! آپ کی کچھ نظمیں ادھر میری نظر سے گزری ہیں۔ آپ تو خاصے معقول شاعر ہیں۔ مگر نہ جانے عام لوگ ہر ترقی پسند شاعر کے بارے میں کیوں بدگمانی کا شکار ہیں اسلم صاحب کی اس بات کے جواب میں نہایت انکسار کے کام لیتے ہیں ہوئے میں نے کہا........ جی ہاں! واقعی عام لوگ بہت غلط فہمیاں پیدا کردیتے ہیں۔ دیکھیے نا! اب آپ کے بارے میں بھی یوں تو یہی بات مشہور ہے کہ آپ ہر نو وارد مسلمان کی تواضع کرنے کے بعد اپنا کوئی نیا افسانہ ضرور سناتے ہیں.... حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔‘‘ (مزاحیات کا انسائیکلوپیڈیا)
ابو الاثر حفیظ جالندھری ایک بار جوتے خریدنے انار کلی گئے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ دکاندار اتنی مشہور شخصیت کو اپنی دکان میں دیکھ کر خوش نہیں ہوا، انہوں نے سوچا کہ ممکن ہے وہ انہیں پہچان نہ سکا ہو۔ چنانچہ انہوں نے اپنا تعارف کرایا۔’’میں حفیظ ہوں۔‘‘
اس نے پھر بھی کسی جوش و خروش کا مظاہرہ نہ کیا تو حفیظ جالندھری نے کہا: