کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 90
اس کے بعد برابر کی میز سے ایک زور دار قہقہہ بلند ہوا۔ مجتبیٰ نے فوراً آواز لگائی۔ ’’ بھئ، ذرا آہستہ ہنسو، یہاں ہوائی جہاز کے ٹکٹ رکھے ہوئے ہیں!‘‘ علی بن عاصم کہتے کہ میں ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں گیا دیکھا کہ ان کے پاس حجام ان کے بال بنا رہا آپ نے اس سے فرمایا کہ تو جس مقام پر سفید بال ہوتے ہیں ہمیشہ اسی جگہ کو لپٹا رہتاہے تو ان میں کیوں اضافہ کرتا رہا ہے اس نے کہا اضافہ کس طرح جب کہ(میں سفید بال کاٹتا رہتا ہوں آپ کی گفتگو ظرافت پر مببی تھی) آپ نے فرمایا کہ (جتنا تو ان کا پیچھا کرتا ہے) ان میں اضافہ ہو۔ (کتاب الاذکیا، از امام جوزی رحمتہ اللہ علیہ) سقراط کی بیوی ایک شعلہ مزاج عورت تھی۔ کوئی دن ایسا نہ جاتا تھا جب وہ سقراط سے بلا وجہ نہ لڑتی ہو۔ ایک دن جب وہ تھکا ہارا گھر پہنچا تو اس کی بیوی نے اسے سخت برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ سقراط اپنی عادت کے مطابق خاموشی سے سر جھکائے بیوی کی خرافات سنتا رہا ۔ سقراط کی خاموشی سے اس کی بیوی کو مزید غصہ آگیا  اور اس نے طیش میں آکر پانی کی بھری ہوئی دیگچی سقراط کے سرپردے ماری۔ اس پر سقراط نے صرف اتنا کہا: ’’ گرجنے کے بعد برسنا بھی ضروری تھا۔‘‘ (اخبار جہاں، ۳۰ ستمبر ۲۰۰۲ء)