کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 9
چنانچہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے حریرہ لیا اور میرے چہرے پر مل دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تماشہ دیکھ کر ہنستے رہے۔
(یہ حدیث کتاب ’’ الفکاہۃ والمداح‘‘ میں زبیر بن بکار کے حوالے سے منقول ہے)
کوئی اور ہوتا تو ان کی حرکت پر ڈانٹتا اور سرزنش کرتا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس چھیڑ چھاڑ سے نہیں روکا بلکہ یہ دیکھ کر خود ہی محفوظ ہوتے رہے ۔حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی زندگی میں خوشیوں کا رنگ بھرنا چاہتے تھے۔ خاص کر عید الاضحیٰ اور دوسرے خوشی کے مواقع پر۔ مشہور واقعہ ہے کہ عید کے موقع پر کچھ لڑکیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں گانا بجانا کررہی تھیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ دیکھر کر برہم ہوئے اور انہیں گانے بجانے سے روکنا چاہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر انہیں گانے بجانے دو، عید کا دن ہے۔ذرا یہودی بھی جان لیں کہ ہمارے دین میں بھی وسعت اور تفریح کے مواقع ہیں۔
کسی موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض حبشیوں کو مسجد نبوی کے اندر کھیل تماشہ دکھانے کی اجازت دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی یہ کھیل تماشہ دیکھتے رہے۔ انہیں جوش دلاتے رہے اور اپنی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا سرکاندھے پر رکھ کر یہ تماشہ دکھاتے رہے۔ لوگ مسجد نبوی میں کھیل تماشہ دکھاتے رہے ،رقص کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں کوئی مضائقہ نہیں محسوس کیا۔
روایت ہے کہ کسی لڑکی کی رخصتی ہورہی تھی۔ رخصتی کے موقع پر کسی کھیل تماشہ اور گانے بجانے کا انتظام نہیں کیا گیا تھا۔
گانے سے مراد آج کل کے جیسے فلمی گانے نہیں ہیں بلکہ شادی کے موقع پر جو مہذب اور شائستہ گانے گائے جاتے ہیں۔