کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 89
ہوئے پوچھا: ’’لیکن مرغ کی ٹانگ کہاں ہے!‘‘ اس کی بیوی نے بتایا کہ مرغ کی ٹانگ کھانے کی ڈاکٹر نے اجازت نہیں دی ،صرف مرغ کے شوربے ہی سے کھانا کھانے کے لیے کہا ہے۔ منٹو نے یہ بات سن کر سیخ پا ہوتے ہوئے کہا: ’’واہ یہ بھی عجیب بات ہے ،مرغ کی ٹانگ کے بغیر مرغ کا گوشت کیامعنی رکھتا ہے،مرغ کی ٹانگ تو محاورے میں استعمال ہوتی ہے۔‘‘ بیوی نے بہت کوشش کی کہ منٹو کھانا کھالے لیکن منٹو اپنی بات پر بضد رہا، وہی مرغ کی ایک ٹانگ۔ عابد روڈ پر اورینٹ ہوٹل حیدرآباد کے ادباء شعرا کی آماجگاہ ہوا کرتا تھا،سر شام اکثر احباب وہاں ایک دوسرے سے ملنے اور اپنے اپنے کارناموں کی خبر دینے وہاں پہنچ جاتے ایک بار مرحوم شاذ تمکنت کو کشمیر سے مشاعرے کا دعوت نامہ ملا اور اس کے ساتھ ہی ہوائی جہاز کے آنے جانے کے ٹکٹ بھی ارسال کیے گئے۔ شاذ تمکنت اورینٹ ہوٹل آئے اور احباب کے ساتھ بیٹھ گئے، ان میں مجتبیٰ حسین بھی تھے، انہوں نے وہ ہوائی جہاز کے ٹکٹ میز پر رکھ دیئے اور ہر آنے جانے والے کو ہوشیار کرتے: ’’بھئی ذرا دیکھ کے، یہاں ہوائی جہاز کے ٹکٹ رکھے ہوئے ہیں۔‘‘ بیرا جب بھی آتا، شاذ اسے آگاہ کرتے۔ بار بار یہی واقعہ پیش آیا۔