کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 87
شجاح مستعین باللہ کے پاس آیا اس کی قبا ایک طرف سے پھٹی ہوئی تھی۔ مستعین نے اس سے پوچھا یہ کیسے پھٹ گئی، اس نے کہا میں ایک گلی سے گزر رہا تھا وہاں کتا تھا میں نے اس کی قمیص پر پاؤں رکھ دیا اس نے میری دم پھاڑ ڈالی یہ سن کر مستعین اپنی ہنسی پر قابو نہیں رکھ سکا۔(حماقت اور اس کے شکار اردو ترجمہ اخبار الحمقیٰ ابن الجوزی رحمہ اللہ) مولانا محمد علی جوہر، مولانا ذوالفقار علی خاں گوہر اور شوکت علی تین بھائی تھے، شوکت صاحب منجھلے تھے۔ انہوں نے 54؍ 52 سال کی عمر میں ایک اطالوی خاتون سے شادی کر لی۔ اخباری نویس نے اور سوالات کرنے کے بعد مولانا شوکت علی سے پوچھا کہ آپ کے بڑے بھائی گوہر ہیں اور آپ کے چھوٹے بھائی جوہر، آپ کا کیا تخلص ہے تو فوراً بولے: ’’شوہر‘‘ مروی ہے کہ ایک شخص نے آ کر ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے کہا کہ میں نے ایک شخص کا برے کلمات سے ذکر کیا، اس کو بھی میری گفتگو کی اطلاع ہو گئی، (اب میں دفع مضرت کے لیے اس کے دل سے اثر زائل کرنا چاہتا ہوں) تو کس عنوان کےساتھ اس سے معذرت کروں، کہنے لگے کہہ دی جیو! والله إن الله ليعلم ما قلت من ذالك من شيئ (لفظ ما نافیہ بھی ہو سکتا ہے اور موصولہ بھی معذرت کرنے والا موصولہ کا مفہوم اپنی مراد قرار دے گا تو یہ معنی ہوں گے، اللہ کی قسم! بے شک اللہ  کو