کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 86
یزید بن مہلب نے ایک اعرابی کو خراسان کے ایک قصبے کا والی بنایا اس نے منبر پر چڑھ کر کہا الحمد للہ پھر بلند آواز سے کہنے لگا اے لوگو! دنیا سے ہوشیار رہو کیوں کہ تم اسے اللہ کے ارشاد کی طرح پاؤ گے، ( یہ کہہ کر شعر پڑھا): ’’ اور دنیا کسی قبیلے کے لیے باقی نہیں اورنہ ہی کوئی قبیلہ دنیا میں باقی رہے گا۔ یہ سن اس کر اس کا کاتب بولا اللہ امیر کو نیکی دے یہ تو شعر ہے، تو اس نے کہا پھر فالندیا یا قیتہ علی احمد صحیح لفظ ہے، کاتب نے کہا نہیں، وہ پھر بولا  پھر قیقی علیما احد صحیح لفظ ہوگا، کاتب نے کہا نہیں تو اس نے کہا کہ پھر میں تجھے اب مجبور نہیں کرتا۔( حماقت اور اس کے شکار اردو ترجمہ اخبار الحمقیٰ ابن الجوزی رحمتہ اللہ علیہ) ابراہیم نخعی کے بارے میں مغیرہ سے مروی ہے کہ ابراہیم نخعی رحمتہ اللہ علیہ کو جب کوئی ایسا شخص تلاش کرتا جس سے وہ ملنا چاہتے تو خادمہ باہر آکر یہ کہہ دیتی تھی کہ مسجدمیں دیکھو( یہ نہیں کہا جاتا تھا کہ وہ گھر میں نہیں ہے) ۔ (کتاب الاذکیا، از امام جوزی رحمتہ اللہ علیہ) ایک دفعہ اکبر الہ آبادی سخت بیمار ہوگئے، جگر کی خرابی کی وجہ سے حکیموں نے تجویز دی کہ اونٹنی کا دودھ پیجئے! اکبر الہ آبادی مسکراکر کہنے لگے: ’’ بڑھاپے میں جگر کی خرابی مجھے شیر خوار بنا رہی ہے، ماں باپ نےبچپن ہی میں غلطی کی، اگر کسی’’ درازقامت‘‘ کا دودھ پلا دیتے، تو آج یہ اونٹنی کا دودھ کیوں تلاش کرنا پڑا۔‘‘