کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 84
ایک مرتبہ مولانا حالی سہارن پور تشریف لے گئے اور وہاں ایک معزز ئیس کے پاس ٹھہرے جو بڑے زمیندار بھی تھے۔ گرمی کے دن تھے اور مولانا کمرے میں لیٹےہوئے تھے۔ اسی وقت اتفاق سے ایک کسان آگیا۔ رئیس صاحب نے اس سے کہا کہ یہ ’’ بزرگ جو آرام کر رہے ہیں ان کو پنکھا جھل۔‘‘ وہ بے چارہ پنکھا جھلنے لگا۔ تھوڑی سی دیر بعد اس نے چپکے سے رئیس صاحب سے پوچھا کہ’’ یہ بزرگ جو آرام کر رہے ہیں کون ہیں؟ میں نے ان کو پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔’’ رئیس نے جواب دیا: ’’کم بخت! تو ان کو نہیں جانتا حالانکہ سارے ہندوستان میں ان کا شہرہ ہے۔ یہ مولوی حالی ہیں۔‘‘اس پر غریب کسان نے بڑے تعجب سے کہا: ’’ جی کبھی ہالی بھی مولوی ہوئے ہیں؟‘‘ (وہ کسان حالی کو ہالی سمجھا جس کے معنی ہل چلانے والے کے ہیں) مولانا لیٹے تھے۔ سو نہیں رہے تھے۔ کسان کا یہ فقرہ سن کر پھڑک اٹھے فوراً اٹھ کر بیٹھ گئے اور رئیس صاحب سے فرمانے لگے: ’’ حضرت! اس تخلص کی داد آج ملی ہے۔‘‘
امام شعبی رحمتہ اللہ علیہ عبدالملک بن مردان کے پاس گئے، بیان کرتےہیں کہ خلیفہ نے اپنے ہاتھ سے میرے منہ میں لقمہ دینے شروع کر دیے اور کہنے لگے کہ شعبی رحمہ اللہ علیہ تیری حدیثیں مجھے ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ مرغوب ہیں پھر کہا کم عطاك (تمہارا وظیفہ کتنا ہے) میں نے کہا الفی درہم ( دو ہزار درہم) تو اہل شام سے سرگوشی کرتے ہوئے کہنے لگے عراقی نے جواب میں نحوی غلطی کی پھر خلیفہ نے سوال کیا کم عطاؤک ( سوال کے دہرانے سے) منشاء یہ تھا کہ میں وہی الفاظ پھر کہوں تو وہ میری غلطی ظاہر کریں، میں نے جواب دیا الفا درہم۔ کہنے لگے کہ تم نے الفی درہم کیوں نہیں کہا میں نےکہا اے امیر المؤمنین آپ نے بھی ( کم عطاک کہہ کر) نحوی غلطی