کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 80
دیا: ’’ہرگز کوئی حرج اور نقصان نہیں۔ صرف اتنی بات ہے کہ نماز نہیں ہوگی۔‘‘ مجالد شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ میں شریح کے پاس موجود تھا کہ ایک عورت ایک مرد سے جھگڑتی ہوئی آئی اس کی آنکھوں میں آنسو جاری تھے وہ رونے لگی میں نے کہا اے: ابو امیہ (شریح کی کنیت ہے) میرے خیال میں یہ غمزدہ مظلومہ ہے انہوں نے جواب دیا اے شعبی یوسف کے بھائی بھی تورات کو اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے تھے۔(لطائف علمیہ، اردو ترجمہ کتاب الاذکیا) قریش کے ایک شیخ نے بیان کیا کہ شریح اپنی ایک اونٹنی فروخت کرنا چاہتے تھے۔ خریدار نے کہا اے ابوامیہ اس کا دودھ کیسا ہے، انہوں نے جواب دیا کہ جس برتن میں چاہو دودھ لو(اس سے کنایتہ یہ وصف مراد ہوسکتا ہے کہ بہت دودھ دیتی ہے جس سے بڑے سے بڑا برتن بھی بھر جائے گا) اس نے پوچھا کہ رفتار کیسی ہے؟ جواب دیا کہ بستر بچھا کر سوجاؤ(یہاں بھی کنایۃ یہ مفہوم ہوتا ہے کہ بہت سبک رفتار ہے مگر حقیقی معنی اور ہی ہیں) پھر اس نے پوچھا خصلت کیسی ہے تو جواب دیا کہ جب تم اس کو اونٹوں میں دیکھو گے تو اس کی جگہ پہچان لوگے اپنا کوڑا لٹکاؤ اور روانہ ہو جاؤ، اس نے کہا کہ اس کی طاقت کا کیا حال ہے تو جواب دیا دیوار پر جتنا بوجھ چاہو لادسکتے ہو، اس نے خریدلیا لیکن اس کی بیان کی ہوئی کوئی صفت بھی ان میں نہ پائی تو اس نے شریح کے پاس آکر کہا کہ میں نے اس میں ایسی کوئی صفت بھی نہیں پائی جو آپ نے ظاہر کی تھی، شریح نے کہا میں نے تجھ سے جھوٹ نہیں