کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 79
طرف غور سے دیکھتے تھے۔ بادشاہ نے پوچھا: ’’ مرزا کیا دیکھتے ہو؟‘‘ مرزا نے عرض کیا: ’’ پیرومرشد ! کہا جاتا ہے کہ دانے دانے پر کھانے والے کا نام لکھا ہوتا ہے ۔میں دیکھ رہا ہوں کہ کسی آم پر میرا نام بھی لکھا ہے یا نہیں؟ ‘‘ بادشاہ مسکرائے اور اسی روز آموں کا ایک ٹوکرا مرزا غالب کے گھر بجھوا دیا۔
سعید بن العاص کا مولیٰ(آزاد کردہ غلام) بیمار ہوگیا اور اس کی کوئی خدمت کرنے والا اور خبر گیری کرنے والا موجود نہ تھا اس نے سعید کو بلا کر کہا کہ میرا کوئی وارث آپ کے سوا نہیں ہے اور یہاں تیس ہزار درہم مدفون ہیں جب میں مرجاؤں ان کو تم نکال لینا،سعید نے اس کے پاس سے باہر نکل کر کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے مولیٰ کے ساتھ برا معاملہ کیا اور اس کی خبر گیری میں بہت کوتاہی کی، اب اس کی خوب اچھی طرح خبر گیری کی اور مستقلاً ایک شخص کو اس کی خدمت پر متعین کردیا، پھر جب اس کا انتقال ہوگیا تو اس پر تین سو درہم کا کفن ڈالا اور اس کے جنازے کے ساتھ موجود بھی رہے جب فارغ ہوکر گھر لوگ آئے سارا گھر کھود ڈالا مگر وہاں کچھ نہ ملا(کیوں کہ یہ مرنے والے نے اپنی خدمت کرانے کی ترکیب کی تھی) اور جس سے کفن خریدا تھا وہ کفن کی قیمت مانگنے آیا تو اس سے (جھنجھلاہت میں) کہا کہ میرا دل یہ چاہتا ہے کہ اس کی قبر کھود کر اس کا کفن کھینچ لاؤں۔(کتاب الاذکیاء از امام جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
ایک دفعہ ایک شخص نے سرسید احمد کو خط لکھا کہ اگر نماز میں بجائے عربی عبارت کے اس کا اردو ترجمہ پڑھ لیا جائے تو کوئی حرج اور نقصان تو نہیں ؟ سرسید نے جواب