کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 77
دبائے۔ حساب برابر ہو۔‘‘ ایک شخص کے پانچ سو دینار چوری ہوگئے، وہ سب مشتبہ لوگوں کو حاکم کے پاس لے گیا، حاکم نے ان سب سے کہا کہ میں تم سے کسی کو ماروں گا نہیں ، بلکہ میرے پاس ایک لمبی ڈور ہے جو ایک اندھیرے کمرے میں پھیلی ہوئی، تم سب اس میں جاؤ اور ہرایک شخص ڈور کو ہاتھ لگا کر پھر ہاتھ کو آستین میں چھپا کر باہر آتا رہے، یہ ڈور چور کے ہاتھ پر لیٹ جائے گی اس شخص نے ڈور کو کوئلہ سے کالا کردیا، تو ہر شخص نے ڈور پر اندھیرے میں اپنے ہاتھ کو کھینچا مگر ان میں سے ایک شخص نے اس کو ہاتھ نہیں لگایا جب سب لوگ باہر آگئے تو اس کے ہاتھوں کو دیکھا سب کے سیاہ تھے سوائے ایک شخص کے اسی کو پکڑ لیا گیا جو بعد میں اقراری ہوگیا۔(کتاب الاذکیا، از امام جوزی رحمتہ اللہ علیہ) ایک دن بزرگ سید سردار مرزا، شام کے وقت مرزا غالب سےملنے کے لیے آئے۔ تھوڑی دیر بعد ٹھہر کر وہ جانے لگے تو مرزا خود اپنے ہاتھ میں موم بتی لے کر اٹھے تاکہ انہیں اپنا جوتا تلاش کرنے میں وقت نہ ہو، سید صاحب نے کہا: ’’ آپ نے کیوں تکلیف فرمائی؟ میں خود اپنا جوتا تلاش کرلیتا۔‘‘ مرزا کہنے لگے:’’ حضرت! میں موم بتی اس لیے لایا ہوں کہ کہیں آپ غلطی سے میرا جوتا نہ پہن کرچلے جائیں۔‘‘