کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 76
رئیس ابوعلی العلوی ایک مرتبہ کسی رئیس کے پاس گیا وہ باتیں کرنے لگے اتنے میں اس دوسرے رئیس کا غلام آیا اور کہا آقا آج کس گھوڑے پر زین ڈالیں۔ اس نے کہا العلوی...... علوی گھوڑے پر ابوعلی نے کہا محترم ذرا اچھے الفاظ استعمال کرو رئیس شرمندہ ہوگیا اور اس نے کہا منہ سے نکل گیا۔(اخبار الحمقیٰ والمغفلین از حافظ جمال الدین ابو الفرج عبدالرحمان ابن الجوزی رحمتہ اللہ علیہ)
ایک عامل امیرکے سامنے کھڑے ہوئے تھے کہ ان کو پیشاب نے مجبور کیا تو یہ باہر آگئے، پھر (فارغ) ہوکرواپس آئے، امیر نے پوچھا کہا گئے تھے، انہوں نے جواب دیا کہ ’’ رائے ٹھیک کرنے کےلیے ‘‘ انہوں نے اس مقولہ مشہور کی طرف اشارہ کیا لارای لحاقن(پیشاب روکنے والے شخص کی رائے قابل اعتبار نہیں)۔( لطائف علمیہ، اردو ترجمہ کتاب الاذکیا)
مرزا غالب کے خاص خاص شاگرد اور دوست جن سے ان کی نہایت بے تکلفی تھی، اکثر شام کو ان کے پاس بیٹھتے تھے، مرزا اس وقت بہت پر لطف باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک روز ان کے چہتے شاگرد میرمہدی مجروح بیٹھے تھے اور مرزا پلنگ پر پڑآ کراہ رہے تھے۔ میر مہدی ان کے پاؤں دبانے لگے۔‘‘ مرزا نے کہا:’’ بھئی تو سید زادہ ہے مجھے کیوں گنہگار کرتا ہے ؟‘‘ انہوں نے نہ مانا اور کہا:’’ آپ کو ایسا ہی خیال ہے تو پھر دبانے کی اجرت دے دیجیے گا۔‘‘ مرزا نے کہا:’’ ہاں اس کا مضائقہ نہیں۔‘‘ جب میرمہدی پیر دباچکے تو انہوں نے اجرت طلب کی۔ مرزا نے کہا: ’’بھیا! کیسی اجرت ؟ تم نے میرے پاؤں دبائے، میں نے تمہارے پیسے