کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 69
ان کے سامنے مسائل بیان کرنا چھوڑ دیتے اور قسم کھا لیتے کہ وہ ان سے مہینہ یا کم وبیش عرص بات نہیں کریں گے۔ چنانچہ جب ایسا کرتے تو اپنی طبیعت پر بوجھ محسوس کرتے ،پس اپنی بکری کے پاس آتے اور اس کے سامنے فقہ کے مسائل بیان کرکے اپنا بوجھ ہلکا کرلیتے لیکن شاگردوں کے سامنے بات نہ کرتے۔ اس وقت ان کے بعض شاگردوں کو کہتے ہوئے سنا جاتا: ’’کاش! اللہ تعالیٰ ہمیں اعمش کی بکری بنادیتا۔‘‘(علمی مزاح:80) پنجاب کے مشہور قانون دان چوہدری شہاب الدین علامہ اقبال کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ ان کا رنگ کالا اور ڈیل ڈول بہت زیادہ تھا۔ ایک روز وہ سیاہ سوٹ پہنے ہوئے اور سیاہ ٹائی لگائے کورٹ میں آئے تو اقبال نے انہیں سرتا پاؤں سیاہ دیکھ کر کہا: ’’ارے چوہدری صاحب! آج آپ ننگے ہی چلے آئے۔‘‘ سیدنا محمدابن زیاد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے سلف صالحین کو دیکھا ہے کہ ان کے کئی کئی کنبے ایک ہی حویلی میں بستے تھے۔ بارہا ایسا ہوتا کہ ان میں سے کسی ایک کے یہاں مہمان آتا اور کسی دوسرے کے یہاں چولہے پر ہانڈھی چڑھی ہوتی تو مہمان والا اپنے مہمان کے لیے اپنے دوست کی ہانڈی اتار لیجاتا۔ بعد میں ہانڈی والا اپنی ہانڈی کو ڈھونڈھتا پھرتا اور لوگوں سے پوچھتا پھرتا کہ میری ہانڈی کون لے گیا؟ میزبان دوست بتاتا کہ بھائی اپنے مہمان کے لیے ہم لے گئے تھے اس وقت ہانڈی والا کہتا: ’’ خدا تمہارے لیے اس میں برکت دے اور محمد ابن زیاد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ لوگ جب روتی پکاتے تب بھی یہی صورت پیش آتی۔