کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 67
جمع کرا دو اور میں یہ رقم لے کر عمر کے پاس جاؤں گا اور کہوں گا کہ یہ وہ وقم ہے جو مغیرہ نے خیانت کرکے میرے پاس جمع کی تھی۔ چنانچہ لوگوں نے اس کےپاس ایک لاکھ درہم جمع کردیئے۔ اس نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کو پیش کردیا اور عرض کیا کہ یہ مغیرہ نے خیانت کرکے میرے پاس رکھوائی تھی۔ یہ سن کر عمررضی اللہ عنہ نے مغیرہ کو بلایا اور فرمایا کہ سنو یہ شخص کیا کہہ رہا ہے ۔ انہوں نے سن کر عرض کیا: اللہ آپ کا بھلا کرے۔ یہ جھوٹ بول رہا ہے ، وہ تو دو لاکھ تھے‘‘ فرمایا: یہ حرکت کیوں کی؟ انہوں نے عرض کیا:’’ کنبہ کے خرچ اور ضرورت نے مجبور کیا۔‘‘ اب سیدنا عمررضی اللہ عنہ نےاس نمائندہ قوم سے خطاب کیا کہ بولو تم کیا چاہتے ہو۔ (دو لاکھ سن کر اس کےہوش و حواس ٹھکانے آچکے تھے) کہنے لگا: ’’اللہ کی قسم! ایسا نہیں(اب) میں آپ سے ضرور سچ کہوں گا۔ اللہ آپ کا بھلا کرے۔ اللہ کی قسم! مغیرہ نےمیرے پاس نہ قلیل رقم رکھوائی نہ کثیر۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے مغیرہرضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’ تم نے اس دہقان کی نسبت کیاارادہ کیا تھا؟‘‘ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ اس خبیث نے مجھ پر جھوٹ باندھا تھا۔ میں نے بھی پسند کیا کہ(اسی سے حقیقت ظاہر کراؤں اور اس کو رسوا کردوں۔‘‘(کتاب الاذکیا، از امام جوزی رحمتہ اللہ علیہ) تیسری صدی ہجری میں خلق قرآن کا مسئلہ اپنے عروج پر تھا۔ معتزلہ کا عقیدہ یہ تھا کہ قرآن حکیم اللہ کا کلام نہیں بلکہ اس کے خیالات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر القا ہوئے اور پھر ان خیالات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے الفاظ میں ڈھالا، اس طرح یہ مخلوق ہے۔ عباسی خلیفہ واثق باللہ نے خاص طور پر اس عقیدہ کی اشاعت میں حصہ لیا