کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 63
ابوبکر الکبی سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں بصرہ سے نکلا، جب وہ کوفہ پہنچا تو میں نے ایک بوڑھے کو دھوپ میں بیٹھا دیکھا تو اس سے پوچھا کے بڑے میاں! حکم کی منزل کہا ہے اس نے کہا ورائک (تیرے پیچھے) میں پیچھے جانے لگا تو اس نے کہا سبحان اللہ میں ورائل کہہ رہا ہوں اور تو پیچھے جارہا ہے عکرمہ نے ابن عباس سے روایت کی کہ اللہ تعالٰی کے ارشاد وکان وراءھم ملک یاخذکل سفنیۃ غصبا میں ورائھم کا معنی سامنے کا ہے میں نے کہا آپ کون؟ اس نے کہا ابوالغضن میں نے پوچھا نام اس نے کہا حجا۔ (اخبار الحمقٰی والمغفلین از حافظ حمال الدین ابوالفرج عبدالرحمٰن ابن الجوزی رحمۃ اللہ)۔ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، ہندو پریس میں ایک خبر چھپی کہ کل شام جب مہاتما گاندھی (ہندوؤں کے مشہور لیڈر موہن داس کرم چندگاندھی) برلا ہاؤس میں اپنی پرارتھنا (دُعا) کررہے تھے تو وہاں ایک بڑا سانپ نکل آیا۔سانپ نے مہاتما جی کے اردگرد دوچکر لگائے اور پھر جس خاموشی سے آیا تھا اسی طرح نکل گیا اس خبر کو مہاتما جی کی کرامت اور روحانی فضیلت کے مظاہرے کے طور پر خوب اچھالا گیا یہاں تک کہ ایک پریس کانفرنس میں ایک ہندؤ صحافی نے محمد علی جناح سے پوچھا!۔ صحافی، سر! مہاتما جی کی پرارتھنا میں ایک سانپ کے عقیدت مندانہ آنے کی خبر آپ نے پڑھی ہوگی۔