کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 61
نے اپنے وکیل کوایک شے معین کے لانے کا حکم دیا مگر وہ دوسری لے آیا اور یہ دوسری چیز تلف ہوگئی۔ قاضی صاحب نے کہا اے امیرالمؤمنین! اس پر ضمان ہے( یعنی اس کی مثل جیز مہیا کرے یا قیمت ادا کرے) تو (قاضی صاحب کے جانے کے بعد) منصور نے خادم سے کہا ہ اس حرکت سے جو چیز تلف ہوگئی اس کا ضمان ادا کرو۔(لطائف علمیہ، اردو ترجمہ کتاب الاذکیا)
یزید بن ثروان کو ابن مروان بھی کہا جاتاتھا اس کی ایک حماقت یہ تھی کہ اس نے کوڑی، ہڈی اور ٹھیکرے کا نبا ہوا ایک ہار اپنے گلے میں ڈال رکھا تھا اور کہتا تھا کہ میں ڈرتا ہوں کہ خود کو گم نہ کردوں اور یہ ہار اس لیے پہنا ہے تاکہ میں خود کو پہچان لوں۔ ایک رات اس کا ہار اس کے بھائی کے گلے میں کسی طرح پہنچ گیا تو جب صبح ہوئی تو یہ اپنے بھائی کو کہنےلگا کہ بھائی! اگر تو میں ہوں تو پھر میں کون ہوں۔(حماقت اور اس کے شکار، اردو ترجمہ اخبار الحمقیٰ ابن الجوزی رحمتہ اللہ علیہ)
ابوالحسن بن ہلال نے لکھا ہے کہ ایک شخص نے جوایک ترکمانی کا ہاتھ پکڑ کر لایا تھا اور کہا اس میں نے اپنی بیٹی سے جماع کرتے ہوئے دیکھا اور میں چاہتا ہوں کہ اس کو آپ کے حکم سے قتل کردوں۔ سلطان نے کہا:’’ نہیں! بلکہ اس کے ساتھ اس کا نکاح کردے اور مہر ہم اپنے خزانے سے ادا کردیں گے‘‘ اس نے کہا کہ میں قتل کے سوا اور کوئی صورت قبول نہیں کرتا۔ سلطان نے حکم دیا کہ تلوار لاؤ تو تلوار حاضر کی گئی، تو اس کو میان سے نکالا اور باپ سے کہا کہ آگے۔ آپھر اس کو تلوار دی اور اپنے ہاتھ میں میان سنبھال لی اور اس سے کہا کہ اس تلوار کو میان میں