کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 60
ڈال دیا۔ اتفاق سے سلیمان نے اس قدر شکار کیا کہ زندگی بھر کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ واپس آیا تو اس کانے آدمی کو باہر نکالنے کا حکم دیا۔ جب وہ کانا شخص اس کے سامنے لایا گیا تو سلیمان بولا: اے شیخ! میں نے تیری پیشانی سے زیادہ مبارک پیشانی کسی کی نہیں دیکھی۔ اس آدمی نے کہا:  اے امیر المؤمنین! تو سچ کہتا ہے۔ لیکن میں نے تجھ سے زیادہ اپنے سامنے آنے والا منحوس شخص آج تک ہیں دیکھا کہ جس کی وجہ سے مجھے سارا دن کنویں میں بھوکا پیاسا رہنا پڑا۔ سلیمان یہ سن کر ہنس دیا اور اسے انعام دے کر رخصت کر دیا۔(ماخذ: علمی مزاح، از پروفیسر منور حسین چیمہ) خلیفہ مہدی کے متعلق علی بن صالح کہتے ہیں کہ میں مہدی کے پاس موجود تھا جب کہ شریک بن عبداللہ قاضی خلیفہ سے ملنے آگئے۔ مہدی نے چاہا کہ قاضی صاحب کے لئے خوشبو جلائی جائے، خادم کو جو پیچھے کھڑا تھا حکم دیا کہ قاضی صاحب کے لئے ''عود'' لاؤ (عود اس خوشبودار مرکب کو کہتے ہیں جس کے جلنے سے خوشبودار دھواں بتدریج اٹھتا رہتا ہے اور عود ایک باجے کا نام بھی ہے جو سارنگی جیسا ہوتا ہے) خادم جا کر عود باجہ اٹھا لایا اور اس نے لا کر قاضی شریک صاحب کی گود میں رکھ دیا۔ شریک نے کہا اے امیر المؤمنین!یہ کیا ہے؟ مہدی نے جواب دیا کہ آج صبح اس باجہ کو افسر پولیس نے برآمد کیا تھا، ہم نے چاہا کہ یہ قاضی صاحب کے ہاتھ سے ٹوٹے ۔ قاضی صاحب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جزاک اللہ خیراََ یا امیر المؤمنین! کہا اوراس کو توڑ دیا۔ پھر وہ دوسری باتوں میں مشغول ہو گئے اور وہ واقعہ فراموش کر دیا۔ پھر مہدی نے شریک سے سوال کا کہ اس صورت میں آپ کیا حکم دیتے ہیں کہ ایک شخص