کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 57
ایک مرتبہ حسن لولوی مامون الرشید کو کوئی قصہ سنا رہے تھ اور مامون اس وقت امیر المؤمنین بن چکے تھے۔ مامون کو اونگھ آ گئی تھی تو حسن لولوی نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! کیا آپ سو گئے؟ تو مامون نے بیدار ہو کر کہا: ''بازاری شخص ہے واللہ! اے غلام! اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر کر دے! ایسا اس لئے کہا کہ سلاطین کا مقصد ہی سوتے وقت کوئی قصہ سننے سے ہوتا ہے کہ نیند آجائے۔ تو اس کا آواز دے کر جگانا مقصد سے بڑی غفلت کے علاوہ بے ادبی بھی تھا۔ (کتاب الاذکیا، از امام جوزی رحمة اللہ علیهم ) ایک مرتبہ پنجاب کے سکھ دہقانوں کا ایک وفد اپنے مسائل کی ایک فہرست لے کر مولانا ابوالکلام آزاد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مولانا نے شرف باریابی بخشا۔ پہلے تو خاموشی کا طویل وقفہ رہا۔ دہقان شاید آپ کے پاس ادب سے چپ رہے اور مولانا منتظر تھے کہ وہ خود ہی سلسلہ کلام شروع کریں۔ پھر مولانا نے پہل کی۔''سنایئے! امسال تمہاری کشت ہائے زرعی میں نزول باراں ہوا یا نہیں؟'' کسانوں نے سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا '' کیوں بھائی! کسی کی سمجھ میں کچھ آیا؟'' سب کے چہرے سپاٹ تھے۔ وہ مؤدب اور سرنگوں بیٹھے رہے، مولانا پھر گویا ہوئے۔  ''نزول باراں عطیہ ہے رحمت باری تعالیٰ کا اس سے اثمار و اناج نشونما پاتے ہیں اور فضائے بسیط کی کثافت دور ہوتی ہے۔'' وفد میں جو قدرے سمجھ دار تھا اٹھا اور باقی افراد کو بھی اٹھنے کا اشارہ کیا۔ سب لوگ مولانا کی طرف پیٹھ کئے بغیر الٹے پیروں واپس آگئے۔ دانا شخص نے بتایا: ''اس وقت مولانا عبادت میں ہیں اور اپنی مذہبی زبان