کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 54
المؤ منین جیل کا قاضی بہت اچھا ہے اس نے ہمارے درمیان انصاف سے کام لیا ہے اور بہت اچھا کام کیا ہے اور میں اپنی تعریفیں کرنے لگا اتنے میں قاضی یوسف رحمہ اللہ نے مجھے پہچان لیا  تو اپنا سر ہلایا  اور ہنسے تو ہارون نے کہا کہ کیوں ہنس رہے ہو تو قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ قاضی خود اپنی تعریفیں کر رہا ہے تو ہارون الرشید بھی خوب ہنسا اور اپنے ہاتھ پاؤں پر مارنے لگا پھر کہا کہ یہ بڑا بنچ اور بے ہودہ بوڑھا ہے اسے معزول کر دوم تو انہوں نے مجھے معزول کر دیا۔(حماقت اور اس کے شکار اردو ترجمہ اخبار الحمقیٰ ابن الجوزی رحمہ اللہ) پطرس بخاری سے جب ایک اعلیٰ عہدیدار ملاقات کے لیے آئے تو انہوں نے کہا کہ تشریف رکھیے۔ یہ سن کر عہدیدار موصوف کو یوں محسوس ہوا کہ کچھ بے اعتنائی برتی جا رہی ہے، چنانچہ انہوں نے پطرس صاحب سے کہا کہ ’’میں محکمہ برتی کا ڈائریکٹر ہوں۔‘‘ اس پر پطرس صاحب نے کہا: ’’پھر آپ دو کرسیوں پر بیٹھ جائیے۔‘‘ (مزاحیات کا انسائیکلوپیڈیا) سر سید، مولانا شبلی اور سید ممتاز علی ایک کمرے میں بیٹھے تھے۔ سرسید کا ایک بہت ضروری کاغذ گم ہو گیا تھا۔ وہ اسے تلاش کر رہے تھے، مگر ملتا نہ تھا۔ اتفاق سے مولانا شبلی کو وہ کاغذ الگ پڑا ہوا مل گیا انہوں نے مزاحاً اس کاغذ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تاکہ سرسید کو تنگ کیا جائے۔ مگر سرسید بھانپ گئے کہ کاغذ شبلی دبائے بیٹھے ہیں۔ اس پر انہوں نے مسکر اتے ہوئے کہا: ’’بڑے بوڑھوں سے سنتے آئے ہیں کہ جو چیز گم