کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 52
علاء بن سعید سے مروی ہے کہ بنو طے کی ایک عورت اور ایک مرد دھوپ میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے عورت نے کہا واللہ! اگر یہ قافلہ کوچ کر جائے تو میں اس کی بچی کچھی چیزیں اور ان کا اون جمع کرکے اس کی صفائی کرکے دھو کر اس کا سوت کاتوں گی اور اسے بازار میں بیچ کر اس سے ایک جوان اونٹنی خریدوں گی پھر اپنے قبیلہ کے ساتھ جب وہ سفر کریں گے سفر کروں گی۔ شوہر نے کہا: کیا تو سمجھتی ہے کہ تو مجھے اب چھوڑ جائے گی حالانکہ تیرا بیٹا عراء میں ہے، اس نے کہا بالکل، تو شوہر نے کہا نہیں اور ان دونوں میں تکرار ہوتی رہی حتیٰ کہ شوہر نے اٹھ کر اسے پیٹنا شروع کردیا اتنے میں عورت کی ماں آگئی وہ چیخنے لگی، اے فلاں قبیلہ والو! کیا قبیلہ کے سامنے میری بیٹی پٹتی رہے گی؟ اور رزق تو اللہ تعالی دیتا ہے، قبیلے والے بھی آگئے انہوں نے پوچھا کیا بات ہوئی ہے، انہوں نے بتایا تو قبیلہ والوں نے کہا تمہاری ہلاکت ہوابھی قافلے نے کوچ بھی نہیں کیا اورتم پہلے ہی لڑنے لگے ہو۔( اخبار الحمقیٰ والمغفلین از حافظ جمال الدین ابوالفرج عبدالرحمان ابن الجوزی رحمتہ اللہ علیہ)
اصمعی کہتےہیں کہ میں ایک دیہاتی کے پاس سے گزرا وہ نماز پڑھا رہا تھا تو میں بھی نماز میں شامل ہو گیا تو اس نے پڑھا(والشمس والضحها والقمر اذا تلاها کلمته منتهها لن يدخل النار ولن يراها رجل نهي النفس عن هواها) تو میں نےکہا یہ قرآن کے الفاظ نہیں ہیں تو اس نے کہا کہ مجھے کچھ سکھاؤ تو میں نے اسے سورۃ فاتحہ اور سورۃ اخلاص یاد کرائی پھر میں کچھ دن بعد یہاں سے گزرا تو وہ صرف سورۃ فاتحہ ہی پڑھ رہا تھا میں نے کہا کہ دوسری سورت کو کیا ہوا، اس نے کہا وہ میں نے اپنے چچازاد بھائی کو ہبہ کردی اور معزز شخص ہبہ میں رجوع نہیں کرتا۔