کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 51
فارتفع الورم الی رکبتاہ (پھر ورم گھٹنے تک پہنچ گیا تھا) طوی نے کہا الی رکبتہ کہو بھتیجا تنگ آ کر بولا رہنے دو چچا تمہاری یہ نحو مجھ پر میرے باپ کی موت سے زیادہ سخت ہے۔  (اخبار الحمقیٰ والمغفلین از حافظ جمال الدین ابوالفرج عبدالرحمٰن ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ) ابن خلف سے مروی ہے کہ ہارون الرشید ایک دن سیر کے لئے نکلے اور اپنے لشکر سے جدا ہو گئے اور فضل بن ربیع اس کے پیچھے تھا انہوں نے راستہ میں ایک بڈھے کو دیکھا جو گدھے پر سوا ر تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک لگام تھی جو ایسی گندی تھی گویا مینگنوں سے بھری ہوئی آنت ہے اس کی صورت پر نظر کی تو اس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا ہارون نے اس کو چھیڑنے کے لئے فضل کو آنکھ ماری فضل نے اس سے کہا بڈھے کہا جا رہا ہے اس نے کہا کہ اپنے باغ میں ۔ فضل نے کہا کیا تجھے ضرورت ہے کہ میں تجھے ایک ایسی دوا بتاؤں کہ اگر اپنی آنکھوں پر تو نے اس کا استعمال کیا تو یہ رطوبت بہنا بند ہو جائے گی اس نے کہا مجھے تو اس کی بہت ضرورت ہے ۔ فضل نے کہا ہوا کی لکڑیاں اور پانی کا غبار اور کماۃ کے پتے (یہ ایک ایسی بوٹی ہوتی ہے جس پر پتا ہوتا ہی نہیں) ان سب کو اخروٹ کے چھلکے (کا کھرل بنا کر اس) میں خوب پیس اور اس سرمہ کو آنکھوں میں لگا تو جو شکایت ہے وہ جاتی رہے گی۔ بڈھا یہ سن کر اپنے گدھے کے پالان پر کچھ جھکا اور اس نے ایک بہت لمبی ریح ماری پھر بولا یہ تیرے نسخہ تجویز کرنے کی اجرت ہے اسے لے لے پھر اگر اس سے ہم کو فائدہ پہنچا تو ہم اور دیں گے(فضل کو جواب نہ بن پڑا) اور ہارون الرشید اتنا ہنسا کہ قریب تھا ہنستے ہنستے اپنے گھوڑے سے نیچے گر پڑے۔ (لطائف علمیہ، اردو ترجمہ کتاب الاذکیا)