کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 47
نے فرمایا تم اس کا خیال چھوڑو، اب انہوں نے مطالبہ کیا کہ یہ مجھے دو، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم اسے پسند نہیں کروگے، زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے پسند کرلیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پختہ اقرار کرا لیا اور یہ شرط کر لی کہ اسے قبول کرنا ہوگا اور پھر واپسی نہ ہو سکے گی، تو نیچے سے نکال کر ان پر ڈال دیا، جب زبیر رضی اللہ عنہ نے اس کو لے کر دیکھا تو وہ ردی نکلا تو کہنے لگے میں تو اس کو لینا نہیں چاہتا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بس بس! اب ہم آپ کے حصے سے فارغ ہوچکے، اس کو ان ہی کے حصہ میں لگایا اور واپس لینے سے انکار کر دیا۔ یاد رہے کہ یہ فروخت کرنے کا معاملہ نہ تھا ، اس صورت میں یہ ضروری ہے کہ اگر مال میں کوئی عیب ہو تو خریدار پر اس کا واضح کردیا جائے۔ یہ تو مفت تقسیم کا معاملہ تھا)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص تھے، آپ ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر کان لگائے رکھتےتھے( یعنی خوب توجہ سے سنتے تھے) ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں از راہ خوش طبعی یوں پکارا، یاذالاذنین(اے دو کانوں والے)۔ (مشکوۃ المصابیح، جلد دوم : ص431 بحوالہ ابو داؤد)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے حاصر ہوکر عرض کیا کہ میرا ایک پڑوسی ہے جو مجھے دکھ پہنچاتا رہتا ہے، آپ نے فرمایا جا اور اپنا سامان نکال کر راستہ پر رکھ دے، اس شخص نے جاکر اپنا سامان نکالنا شروع کردیا، تو لوگ اس کے پاس جمع ہوگئے اور انہوں پوچھا کہ کیا بات ہے، اس نے کہا میرا ایک پڑوسی مجھے تکلیف دیتا رہتا ہے ، میں نے ا س کی شکایت رسول