کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 46
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے پھر آہستہ سے جواب دیا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ اس بار بھی سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے آواز کو پست رکھا جناب نے خیال فرمایا کہ شاید سعد رضی اللہ عنہ گھر پر نہیں یا کسی وجہ سے مجھے اجازت دینے میں کوئی امر مانع ہے ،جناب کا معمول تھا کہ اگر تین دفعہ پکارنے پر بھی صاحب خانہ اجازت نہ دیتے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آتے ابھی رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم واپس مڑے ہی تھے کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ جلدی سے مکان سے باہر نکلے اور عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ماں اور باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں تشریف لائیے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام سن رہا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کا جواب بھی آہستہ سے دے رہا تھا، غرض یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ سے زیادہ ہم پر سلام کریں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جانثار کا یہ جذبہ دیکھ کر مسکرادیے اور آپ رضی اللہ عنہ کے گھر کے اندر تشریف لے گئے۔(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسکراہٹیں) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اسلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ سیدناعمر کے پاس کپڑوں کے کچھ جوڑے یمن سے آئے جن کو آپ نے لوگوں پر تقسیم کرنا چاہا، ان میں سے ایک جوڑا خراب تھا، آپ نے سوچا اسے کیا کروں، یہ جس کو دوں گا وہ اس کے عیب دیکھ کر لینے سے انکار کردے گا، آپ نے اس کو لیا اور تہ کر کے اپنی نشست گاہ کے نیچے رکھ لیا اور اس کا تھوڑا سا پلہ باہر نکال دیا دوسرے جوڑوں کو سامنے رکھ کر لوگوں کو تقسیم کرنا شروع کردیا اب زبیربن العوام آئے اور آپ تقسیم میں لگے ہوئے اور اس جوڑے کو دبائے ہوئے تھے انہوں نے اس جوڑے کو گھورنا شروع کردیا، پھر بولے یہ جوڑا کیسا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم اس کو چھوڑو۔ وہ پھر بولے یہ کیا ہے یہ کیا ہے اس میں کیا وصف ہے، آپ